دنیا

میانمار کی فورسز روہنگیا کے خلاف 'جنگی جرائم' میں ملوث ہیں، کمیشن

طاقت کے غیرمتناسب استعمال کے ذریعے سیکیورٹی فورسز کے کچھ اراکین نے بے گناہوں کو قتل کیا، رپورٹ میں انکشاف

نےپیتاؤ: میانمار حکومت کی جانب سے قائم کیا گیا آزادانہ کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ یہ ماننے کے لیے وجوہات موجود ہیں کہ مزاحمت کرنے والوں کے خلاف کیے گئے آپریشنز میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا جس کی وجہ سے 7 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو پڑوسی ملک بنگلہ دیش جانا پڑا۔

تاہم کمیشن کے سربراہ فلپائنی سفارتکار نے صدر ون مینٹ کو دی گئی رپورٹ میں کہا کہ ایسے الزامات کی حمایت میں کوئی ثبوت نہیں ملا کہ روہنگیا کے خلاف نسل کشی کی گئی یا اس کی منصوبہ بندی کی گئی۔

امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ انکوائری کرنے والے آزاد کمیشن نے اپنی تحقیقات کے نتائج سے فیس بک پیج پر ایک بیان کے ذریعے آگاہ کیا لیکن اس کی مکمل رپورٹ عوامی سطح پر جاری نہیں کی گئی۔

مزید پڑھیں: روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر میانمار کے خلاف عالمی عدالت میں کیس

تاہم اس کے باوجود میانمار کی حکومت کی جانب سے حکومتی فورسز کے بڑے جرائم میں مرتکب ہونے کا اشارہ دینے کے لیے جاری کیے گئے کوئی بھی عوامی بیان سے بات بڑھ گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 2017 میں جنگی جرائم، سنگین انسانی حقوق اور مقامی قوانین کی خلاف ورزیاں اگرچہ مختلف عناصر کی جانب سے کی گئیں لیکن یہ یقین کرنے کے لیے معقول بنیادیں ہیں کہ میانمار کی سیکیورٹی فورسز کے اراکین اس میں ملوث تھے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ 'اندرونی مسلح تنازع کے دوران طاقت کے غیرمتناسب استعمال کے ذریعے میانمار کی سیکیورٹی فورسز کے کچھ اراکین نے بے گناہ گاؤں والوں کو قتل کیا اور ان کے گھروں کو تباہ کردیا'۔

یہ بیان اقوم متحدہ کی اعلیٰ عدالت کے اس فیصلے سے قبل آیا جو جمعرات کو شیڈول ہے اور اس میں درخواست کی گئی ہے کہ میانمار کو حکم دیا جائے کہ وہ روہنگیا کے خلاف نسل کشی مہم کے طور پر بیان کیے جانے والے عمل کو روکیں۔

واضح رہے کہ 57 ممالک کی اسلامی تعاون تنظیم کے اس الزام کی بنیاد پر کہ میانمار میں نسل کشی کی گئی اور اب بھی جاری ہے، گمبیا قانونی کارروائی کے لیے گزشتہ برس ہالینڈ میں موجود عالمی عدالت انصاف میں گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: روہنگیا نسل کشی: میانمار کی آنگ سانگ سوچی عالمی عدالت میں پیش

دسمبر میں اس کیس کی ابتدائی سماعت میں میانمار کی لیڈر، اسٹیٹ کونسلر آنگ سانگ سوچی نے حکومتی فورسز کی جانب سے کچھ غلط کرنے کی سختی سے تردید کی تھی۔

بدھ مت کی اکثریت والے میانمار میں طویل عرصے سے روہنگیا کو بنگلہ دیش کے 'بنگالی' تصور کیا جاتا ہے، اگرچہ ان کے خاندان عرصوں سے اسی ملک میں رہ رہے ہیں، تاہم 1982 سے ان تمام کی شہریت سے انکار کرنے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ انہیں ریاست سے محروم کرنے اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت اور دیگر بنیادی حقوق سے بھی انکار کیا جاتا ہے۔


یہ خبر 22 جنوری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی