'اب لیڈروں کی اتنی اوقات نہیں کہ پارٹی کو تقسیم کرسکیں'
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ گزشتہ روز حکومتی وفد سے ملاقات میں سنجیدگی کا پہلو نمایاں نظر آیا تاہم امید ہے کہ ہمارے مطالبات پر مثبت اور تیزی سے پیش رفت ہوگی۔
ایک سوال کے جواب میں خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہمارے مطالبات پر پیش رفت اذیت ناک حد تک سست تھی، پھر ہمیں احساس ہوا کہ حکومت کی جانب سے عدم سنجیدگی بھی ہے۔
مزیدپڑھیں: عامر خان، خالد مقبول کو ہٹا کر امین الحق کو وزیر بنانا چاہتے ہیں، مصطفیٰ کمال
انہوں نے کہا کہ 'جس طبقے نے ملک بننے سے پہلے پاکستان کی مخالفت کی، بدنصیبی سے ملک کی باگ ڈور ان ہاتھوں میں آگئی'۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ 'اب ان کو پتہ لگا کہ کراچی سے دارالخلافہ تو اسلام آباد لے گئے لیکن معاشی اور نظریاتی دارالخلافہ نہیں لے جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمارے آئین میں بہت زیادہ ابہام ہیں جنہیں قصداً ایسا رکھا گیا تاکہ اپنی مرضی کی تشریح کرسکیں'۔
ایک سوال کے جواب میں خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے کراچی کو ملک کا دارالخلافہ بنایا تھا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر نے کہا کہ ہم نے حکومت سے کیے گئے تمام وعدے پورے کردیے اور اب سندھ کے شہری علاقے انصاف کے متقاضی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت، ایم کیو ایم وفود کی 'ملاقات': خالد مقبول وزارت چھوڑنے کے فیصلے پر قائم
مہنگائی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ 11 سال سے معاشی دہشت گردی کے خلاف حکومت کتنی سنجیدگی سے اقدامات اٹھاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ مہنگائی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے جو کوششیں ہونی چاہیے تھیں وہ نہیں کی گئیں'۔
پارٹی کنوینر نے کہا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت کو معیشت جس حال میں ملی وہ بہت خراب صورتحال تھی لیکن ہر آنے والی حکومت کو اس طرح کے چینلجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پارٹی میں تقسیم سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'لیڈروں میں اتنی اوقات نہیں رہی کہ تنظیم کو تقیسم کرسکیں اب کارکنوں نے جوڑا ہوا ہے'۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پارٹی کے سابق کنوینر فاروق ستار نے کہا تھا کہ 'جو سربراہ ہے وہ ڈمی سربراہ ہے کیونکہ پارٹی کے بڑوں کو ڈمی سربراہ چاہیے تھا'۔
مزیدپڑھیں: خالد مقبول صدیقی کا وزارت آئی ٹی چھوڑنے کا اعلان
انہوں نے کہا تھا کہ پارٹی موجودہ سیاسی بحران کے نتیجے میں تقسیم ہوچکی ہے اور ایم کیو ایم کراچی کے علاوہ ایم کیو ایم حیدرآباد کا وجود سامنے آچکا ہے۔
انہوں نے پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ حیدر آباد والوں نے رغب ڈال کر وزارت خالی کرائی تاکہ کسی اور نوازا جائے۔
اس سے قبل پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے کہا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے کراچی والوں کا نام لے کر استعفے کا بحران پیدا کیا اور ایم کیو ایم رہنما عامر خان پارٹی کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کو ہٹا کر اپنے لوگوں کو وزارت میں لانا چاہتے ہیں۔
مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ 'وفاقی حکومت کو ایم کیو ایم سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، یہ حکومت سے باہر نہیں جاسکتے کیونکہ ان کی کرپشن کی سانسیں حکومت کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں'۔