ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نام ہٹانے کے لیے پاکستان کا امریکا پر زور
واشنگٹن: پاکستان نے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مال معاونت کے نگراں ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکالنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نیوز بریفنگ کے دوران بتایا کہ پاکستان کو امید ہے کہ امریکا، پاکستان کی آئندہ ماہ بیجنگ میں اجلاس کے دوران ایف اے ٹی ایف کی فہرست سے نکلنے کی کوششوں کی حمایت کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ اجلاس ہمارے لیے بہت اہم ہے کیونکہ اس کے بعد عالمی ادارے کا پیرس میں اجلاس ہوگا جہاں دنیا اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ پاکستان کو فہرست میں رکھنا ہے یا نہیں'۔
ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے جو منی لانڈرنگ کو روکنے میں ناکام رہے ہیں اور جہاں دہشت گرد اپنی سرگرمیوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرسکتے ہیں۔
اگر پاکستان اپریل تک گرے لسٹ سے باہر نہیں آیا تو شاید پاکستان کو بلیک لسٹ کردیا جائے گا جس کے تحت ملک کو متعدد معاشی پابندیوں کا سامنا ہوگا، جیسے ایران کو معاشی پابندیوں کا سامنا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے اہم امریکی قانون سازوں و حکام بشمول سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو اور قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن سے ملاقات کے بعد امریکا کے 3 روزہ دورے کا اختتام کیا۔
وزیر خارجہ نے رواں ہفتے واشنگٹن اور تہران میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایران، سعودی عرب اور امریکا کا دورہ بھی کیا۔
اپنی نیوز بریفنگ میں شاہ محمود قریشی نے امریکا پر پاکستان کے لیے سفری تجاویز پر نظر ثانی کرنے اور ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کا کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی سفری تجاویز میں اب بھی یہی لکھا ہے کہ دہشت گردی کے خطرات کی وجہ سے پاکستان کا سفر نہ کریں۔
انہوں نے واشنگٹن کو حال ہی میں اقوام متحدہ کی جانب سے 10 بہترین سیاحتی مقامات کی فہرست میں پاکستان کا نام شامل کیے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'سفری تجاویز پر نظر ثانی سے پاکستان میں سیاحت کو فروغ ملے گا'۔
ایف اے ٹی ایف کے بیجنگ میں ہونے والے اجلاس کی اہمیت کے حوالے سے سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ چینی دارالحکومت بیجنگ میں ہونے والے فیصلے کے، ایف اے ٹی ایف کے پیرس میں ہونے والے اجلاس پر گہرے اثرات ہوں گے جس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ پاکستان گرے لسٹ میں رہے گا یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے امریکی دوست اپنی پالیسی بتائیں، آپ ہمیں بتائیں کہ آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'ایف اے ٹی ایف کی فہرست سے نام نکلنے کا عمل راتوں رات نہیں ہوسکتا ہے تاہم امریکا اس عمل میں تیزی لاسکتا ہے کیونکہ پاکستان کو اس کا انتظار ہے'۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'آپ ہماری مدد کریں کہ ہم پاکستان کی برآمدات کیسے بڑھاسکتے ہیں، ہمارے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کیسے بڑھائے جاسکتے ہیں، ہمیں آپ کے مشورے کی ضرورت ہے، ہمیں سیاحت کے شعبے میں آپ کی سرمایہ کاری کی بھی ضرورت ہے'۔
مزید پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کا 'دہشتگردی سے متعلق سفر' کی مالی معاونت کو جرم قرار دینے پر زور
ان کا کہنا تھا کہ 'وزیر اعظم عمران خان سے گزشتہ سال ملاقات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر آئے اور اب ہمیں امید ہے کہ امریکی حکام اس کے لیے کچھ کام کریں'۔
انہوں نے کہا کہ 'اسلام آباد نے ایف اے ٹی ایف کے مطالبات پورے کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ امریکا، ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش پوری کرے'۔
انہوں نے یاد دلایا کہ جب مائیک پومپیو 2018 میں اسلام آباد آئے تھے تو میں نے ان سے کہا تھا کہ ہم باہمی تعلقات دوبارہ بحال کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جس پر انہوں نے کہا تھا کہ یہ کابل کے راستے ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'آج ہم نے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے، طالبان مذاکرات کی ٹیبل پر آگئے ہیں اور پھر آپ نے کہا کہ وفد طاقتور ہونا چاہیے ہم نے وہ بھی کیا'۔
یہ بھی پڑھیں: ’پاکستان فروری تک ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان پر عملدرآمد کرلے گا‘
انہوں نے کہا کہ 'پھر آپ نے کہا کہ طالبان کے پاس مغرب کے 2 باشندے مغوی ہیں، اگر انہیں رہا کردیا جائے تو یہ جذبہ خیر سگالی کا اظہار ہوگا، ہماری سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے 72 اجلاس کیے اور آپ نے مغویوں کو خیر و عافیت کے ساتھ گھر جاتے ہوئے دیکھا'۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'پاکستان نے یہ بھی کیا، انہوں نے کہا کہ طالبان کو خونریزی سے روکا جائے، یہ آسان کام نہیں تھا مگر یہ بھی ہوا، طالبان حملے روکنا چاہتے ہیں اور اب میرا پیغام ہے کہ یہ سنہری موقع ہے، افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے ایران سمیت خطے کے تمام ممالک اس بات پر آمادہ ہیں، آپ اس بات کا فائدہ اٹھائیں اور معاہدے پر دستخط کریں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اس معاہدے سے انٹرا افغان مذاکرات سامنے آئیں گے اور انہیں بھی اس ہی طریقہ کار پر چلنا چاہیے'۔
انہوں نے یاد دہانی کی کہ 'پاکستان واشنگٹن کی تمام امیدوں پر پورا اترا ہے اور اب ہمیں بھی کچھ امیدیں ہے تو آپ نے کیا کیا ہے'۔