پاکستان

پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) نے جمہوریت کو دفن کردیا، حاصل بزنجو

تین افراد کے لیے قانون لایا گیا، بڑی جماعتوں نے پارلیمنٹ اور جمہوریت کے ساتھ مذاق کیا جو قابل مذمت ہے، رہنما نیشنل پارٹی

نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاصل بزنجو نے قومی اسمبلی و سینیٹ میں آرمی ایکٹ ترمیمی بلز کے حق میں ووٹ دینے پر سابق اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج ملک کی تین بڑی جماعتوں نے جمہوریت کو پارلیمنٹ میں دفن کردیا۔

سینیٹ میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ ‘آج جو کچھ پارلیمنٹ میں ہوا، ملک کی تین بڑی پارٹیوں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جعلی مینڈیٹ والی حکومت نے مل کر جمہوریت کو پارلیمنٹ کے اندر دفنا دیا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘آج صرف تین افراد کے لیے قانون لایا گیا کہ نیول چیف، آرمی چیف اور ایئر فورس کے سربراہ کو ایکسٹینش دی جائے’۔

مزید پڑھیں:سینیٹ میں بھی آرمی، نیوی، ایئرفورس ایکٹس ترامیمی بلز کثرت رائے سے منظور

نیشنل پارٹی کے رہنما نے کہا کہ ‘وہ کہتے ہیں کہ ہم نماز بخشوانے گئے تھے اور روزے گلے پڑے، ہم ایک آرمی چیف کی ایکسٹینشن سے تنگ تھے، اب اس میں نیوی، ایئر فورس اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف بھی آگئے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہم سمجھتے ہیں کہ آج سیاسی جماعتوں نے اس پارلیمنٹ اور جمہوریت کے ساتھ جو مذاق کیا ہے، اس سے بڑی زیادتی نہیں ہوسکتی اور یہ قابل مذمت ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) ہمارے مقابلے میں بڑی جماعتیں ہیں لیکن آج چھوٹی جماعتوں نے چاہے مذہبی ہوں، جمہوری یا قوم پرست ہوں وہ جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی آمریت کے ساتھ کھڑی ہیں’۔

حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ ‘میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ قابل مذمت ہے’۔

خیال رہے کہ پاکستان آرمی، نیوی، ایئرفورس ایکٹ ترامیمی بلز 2020 قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی کثرت رائے سے منظور کر لیے گئے جہاں نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) نے اس کی مخالفت کی۔

یہ بھی پڑھیں:قومی اسمبلی میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کثرت رائے سے منظور

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی صدارت میں منعقدہ سینیٹ اجلاس میں وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر قانون فروغ نسیم، وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی و دیگر اراکین موجود تھے جبکہ سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی ایوان میں موجود نہیں تھے۔

ایوان بالا میں پاک آرمی ایکٹ 1952، پاک فضائیہ ایکٹ 1953 اور پاک بحریہ ایکٹ 1961 میں ترامیم کے لیے علیحدہ علیحدہ بلز پیش کیے گئے تھے۔

قومی اسمبلی سے 7 جنوری کو پاکستان آرمی، نیوی اور ایئرفورس ایکٹ ترامیمی بلز 2020 کی منظوری لی گئی تھی جس کے بعد سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع میں پیش کیا گیا تھا **جہاں اس کو منظور کر لیا گیا ** تھا جس کے بعد سینیٹ میں پیش کردیا گیا۔

حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر ولید اقبال نے قائمہ کمیٹی دفاع کی تینوں ترامیمی بلز سے متعلق رپورٹ پیش کیں جس کے بعد وزیردفاع پرویز خٹک نے بلز پیش کیے جن کی شق وار منظوری لی گئی اور ایوان میں موجود اراکین کی اکثریت نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔

ایوان میں ان ترامیمی بلز کو پیش کرنے کے وقت نیشنل پارٹی کے 4 سینیٹرز نے مخالفت کی جبکہ ایک سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار نے بل کی حمایت کی۔

جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) نے احتجاج کیا اور ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔

آرمی ایکٹ میں ترامیم کیا ہیں؟

پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2020 کے عنوان سے کی جانے والی قانون سازی کے نتیجے میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور چیئرمین آف جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی ریٹائرمنٹ کی زیادہ سے زیادہ عمر کی حد 64 برس ہوجائے گی۔

اس کے ساتھ مستقبل میں 60 برس کی عمر تک کی ملازمت کے بعد ان کے عہدے کی مدت میں توسیع کا استحقاق وزیراعظم کو حاصل ہوگا جس کی حتمی منظوری صدر مملکت دیں گے۔

پیش کردہ بل کے مطابق آرمی ایکٹ میں دفعہ 8 اے، بی، سی، ڈی، ای، ایف شامل کیے جائیں گے جبکہ آرمی چیف کی مدت ملازمت اور عمر کے حوالے سے دفعہ 8 سی کہتی ہے کہ: اس ایکٹ کے قواعد و ضوابط کے مطابق کسی جنرل کی مقررہ ریٹائرمنٹ کی عمر اور مدت ملازمت کی کم از کم عمر کا اطلاق چیف آف آرمی اسٹاف کی تعیناتی کی مدت، دوبارہ تعیناتی اور توسیع کے دوران نہیں ہوگا اور اس کی زیادہ سے زیادہ عمر 64 سال ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی ایکٹ میں ترامیم: پارلیمانی طریقہ اپنایا جائے گا تو حمایت کریں گے، بلاول بھٹو

اس عرصے کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف، پاک فوج میں جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہیں گے۔

دفعہ 8 اے (بی) کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف کے لیے شرائط و ضوابط کا تعین صدر مملکت، وزیراعظم کے مشورے پر کریں گے۔

اس حوالے عہدیدار کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو کسی قانونی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔

دفعہ 8 بی (ٹو) کے مطابق اس ایکٹ یا کسی اور قانون میں موجود مواد، کسی حکم یا کسی عدالت کے فیصلے، تعیناتی، دوبارہ تعیناتی، چیئرمین کی توسیع، جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی، یا اس سلسلے میں کسی کو تعینات کرنے کی صوابدیدی کو کسی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا‘۔

پس منظر

خیال رہے کہ 28 نومبر کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اگلے 6 ماہ تک پاک فوج کے سربراہ ہوں گے اور اس دوران حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے سے آرمی چیف کی توسیع اور تعیناتی پر قانون سازی کرے۔

سپریم کورٹ نے 26 نومبر کو درخواست کی پہلی سماعت میں وفاقی حکومت کی جانب سے آرمی چیف کی مدت کے حوالے سے اگست میں جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کو معطل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حوالے سے قانون موجود نہیں ہے۔

بعد ازاں اپنے تفصیلی فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ آرمی سے متعلق قوانین کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جنرل اور آرمی چیف کی مدت اور ریٹائرمنٹ کی عمر کے ساتھ ساتھ مدت میں توسیع یا ازسر نو تعیناتی کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وزارت دفاع کی جانب سے آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی، توسیع اور از سرنو تعیناتی کے لیے جاری کی گئی سمری جس کی منظوری صدر، وزیراعظم اور کابینہ نے دی، بے معنی ہے اور قانونی خلا پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

سپریم کورٹ نے احتساب عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کا ریکارڈ طلب کرلیا

ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تو اسے 'زوردار دھچکا' دیں گے، بنجمن نیتن یاہو

پاکستان خطے میں کسی تنازع کا حصہ نہیں بنے گا، وزیر اعظم