ٹرمپ ایرانی ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی پر قائم، ’بڑی کارروائی‘ کا انتباہ
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر ایران کی جانب سے جوابی کارروائی کے اعلان پر تہران کے ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی پر قائم ہیں جب کہ امریکی فوج کو ملک سے نکالنے پر عراق پر ایران جیسی سخت پابندیوں کی بھی دھمکی دے دی۔
برطانوی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران نے فوجی کمانڈر کے قتل کے جواب میں حملہ کیا تو ’بڑی انتقامی کارروائی‘ کی جائے گی۔
جہاں ایک جانب ڈونلڈ ٹرمپ ایران کو خبردار کر رہے ہیں تو دوسری جانب امریکی صدر اور ان کے مشیر اس امریکی ڈرون حملے کا دفاع کررہے ہیں جس کے نتیجے میں ایرانی فوجی کمانڈر قاسم سلیمانی ہلاک ہوئے تھے اور خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ قاسم سلیمانی امریکیوں پر حملے کی منصوبہ بندی کررہے تھے، انہوں نے مزید کہا کہ وہ اُن انٹیلی جنس رپورٹس کو جاری کرنے پر غور کریں گے جو ایرانی کمانڈر کے براہ راست قتل کی وجہ بنیں۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کو جوابی کارروائی کرنے پر 52 اہداف کو نشانہ بنانے کی دھمکی
ایران کی جانب سے ممکنہ انتقامی کارروائی سے متعلق امریکی صدر نے کہا کہ ’اگر ایسا ہوتا ہے، اگر وہ کچھ کرتے ہیں تو بڑی انتقامی کارروائی ہوگی‘۔
ادھر امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایرانی ثقافتی اہداف کو نشانہ بنانے کی دھمکی دینے کو مسترد کیا لیکن جب اسی حوالے سے امریکی صدر سے پوچھا گیا تو انہوں نے مائیک پومپیو کے بیان کی مخالفت کی۔
امریکی صدر نے کہا کہ ’انہیں سڑکوں پر بم استعمال کرنے اور ہمارے لوگوں کو دھماکے سے اڑا دینے کی اجازت ہے اور ہمیں ان کے ثقافتی مقامات کو چھونے کی بھی اجازت نہیں؟ اب ایسا نہیں چلے گا‘۔
خیال رہے کہ امریکی صدر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے مختلف ٹوئٹس میں کہا تھا کہ 'قاسم سلیمانی ہمارے سفارتخانے پر بھی حملے کر رہا تھا اور دیگر مقامات پر حملوں کی بھی تیاری کر رہا تھا'۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'ایران کئی برسوں سے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے اور اسے ایک دھمکی سمجھا جائے کہ اگر ایران نے امریکیوں یا امریکی اثاثوں پر حملہ کیا تو ہم 52 ایرانی اہداف کو نشانہ بنائیں گے'۔
یہ بھی پڑھیں: ایرانی فوجی جنرل کو بہت پہلے ہی قتل کردینا چاہیے تھا، ڈونلڈ ٹرمپ
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 'یہ 52 اہداف میں سے چند ایران اور ایرانی ثقافت کے لیے نہایت اہم اور اعلیٰ سطح کے ہیں اور ان اہداف سے ایران کو بہت بڑا دھچکا لگے گا، امریکا مزید دھمکیاں نہیں دینا چاہتا'۔
واضح رہے کہ عالمی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد اور ثقافتی املاک کے تحفظ سے متعلق ہیگ کنونشن 1954 کے تحت فوجی کارروائی کے ساتھ ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانا جنگی جرم سمجھا جاتا ہے۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی حمایت 2017 میں ٹرمپ انتظامیہ نے کی تھی۔
ٹرمپ کی عراق پر پابندیاں لگانے کی دھمکی
دوسری جانب عراق کی پارلیمنٹ کی جانب سے امریکی اور دیگر غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے مطالبے کے بعد امریکی صدر نے بغداد کو بھی دھمکی دے دی۔
خیال رہے کہ عراق کی پارلیمنٹ نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد گزشتہ روز حکومت پر دباؤ بڑھاتے ہوئے ملک میں موجود ہزاروں امریکی فوجیوں کو فوری طور پر واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: عراقی پارلیمنٹ کا ایرانی جنرل کی ہلاکت کے بعد امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ہمارے پاس ایک غیر معمولی مہنگا فضائی اڈہ ہے جو وہاں (عراق میں) ہے، اس کی تعمیر میں میرے دور سے کافی پہلے اربوں ڈالر لاگت آئی، (لہٰذا) ہم اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک وہ ہمیں واپس اس کی ادائیگی نہیں کرتے‘۔
امریکی صدر نے کہا کہ اگر عراق، امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کرتا ہے (تو) یہ دوستی کی بنیاد پر نہیں کیا گیا اور 'ہم ان پر ایسی پابندیاں عائد کریں گے جو انہوں نے کبھی نہیں دیکھی ہوں گی، یہ پابندیاں ایران پر لگائی گئی پابندیوں جیسی ہوں گی‘۔
ایرانی جنرل کی ہلاکت
خیال رہے کہ 3 جنوری کو عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایئرپورٹ کے نزدیک امریکی فضائی حملے میں پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوگئے تھے۔
بعدازاں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ان کے نائب اسمٰعیل قاآنی کو پاسداران انقلاب کی قدس فورس کا سربراہ مقرر کردیا تھا۔
امریکا-ایران کشیدگی میں اضافہ
قاسم سلیمانی کے ہلاکت کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے امریکا کو سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے قاسم سلیمانی کو مزاحمت کا عالمی چہرہ قرار دیا تھا اور ملک میں 3روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔