پاکستان

سانحہ تیزگام کی جوڈیشل انکوائری کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست

درخواست میں وزیر ریلوے، سیکریٹری ریلوے، چیف ایگزیکٹو افسر، انسپکٹر جنرل اور دیگر کو فریق بنایا ہے،رپورٹ
|

اسلام آباد: پاکستان ریلوے کے سابق جنرل منیجر نے گزشتہ برس ہونے والے سانحہ تیزگام کی جوڈیشل انکوائری کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سانحہ تیزگام کی جوڈیشل انکوائری کے لیے درخواست گزار شفیق اللہ نے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد، ریلوے کے سیکریٹری، چیف ایگزیکٹو افسر، انسپکٹر جنرل، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری کو فریق بنایا ہے۔

درخواست میں عدالت سے 31 اکتوبر، 2019 کو پیش آنے والے 7-اپ تیزگام ایکسپریس کے حادثے کی جوڈیشل انکوائری کروانے اور وزارت ریلوے کی جانب سے سانحے کے متاثرین کے قیمتی حقوق کو نقصان پہنچانے اور مادی حقائق دبانے سے متعلق احکامات واپس لینے کی استدعا کی گئی۔

اس میں کہا گیا کہ 'سیکریٹری ریلوے نے نااہل سینئر گریڈ افسران کو ناجائز فائدے کی اجازت دے کر ریلویز ایکٹ، 1980 کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی کی ہے جس سے مختلف گروہوں میں افراتفری اور خوف پھیل گیا ہے ‘۔

مزید پڑھیں: سانحہ تیزگام: ابتدائی تحقیقات میں آگ کی وجہ سلنڈر دھماکا قرار

درخواست کے مطابق ’ریل حادثات انسانی غلطی یا مداخلتوں، دانستہ طور پر یا کسی اور طرح سے ہوتے، جنہیں نظام کے طریقہ کار پرعملدرآمد کے تحت ٹھیک کرنے اور میرٹ اور سینئرٹی کے مطابق اہل افراد کی تعیناتی سے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے‘۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس 31 اکتوبر کو کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیز گام ایکسپریس میں پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے قریب گیس سلنڈر پھٹنے سے خوفناک آگ لگ گئی تھی، جس کے باعث 74 افراد جاں بحق جبکہ 30 سے زائد مسافر زخمی ہوگئے تھے۔

بدقسمت ٹرین کو حادثہ صبح 6:15 منٹ پر پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور میں چنی گوٹھ کے نزدیک چک نمبر 6 کے تانوری اسٹیشن پر پیش آیا تھا۔

حکام نے بتایا تھا کہ متاثرہ بوگیوں میں سوار مسافر رائیونڈ اجتماع میں شرکت کے لیے جارہے تھے اور آتشزدگی کی لپیٹ میں آنے والی 2 بوگیاں خصوصی طور پر بک کروائی گئی تھیں جن میں زیادہ تر مرد حضرات سوار تھے اور ان کے پاس کھانا بنانے کے لیے سلنڈر بھی موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ تیزگام: ابتدائی تحقیقات میں آگ کی وجہ سلنڈر دھماکا قرار

عینی شاہدین کے مطابق سلنڈر پھٹنے سے ٹرین میں دھماکا ہوا تھا جس کے آواز سن کر متعدد مسافر تخریب کاری کے خطرے کے پیشِ نظر چلتی ہوئی ٹرین سے کود گئے تھے۔

حادثے کے بعد وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے جاں بحق افراد کے لیے 15 لاکھ روپے اور زخمیوں کے لیے 5 لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کردیا تھا۔

وزیر ریلوے نے انکشاف کیا تھا کہ مسافروں کا سامان چیک کرنے کی سہولت صرف بڑے اسٹیشنز پر موجود ہے باقی چھوٹے اسٹیشنز پر مسافروں کے سامان کی تلاشی لینے کا کوئی نظام نہیں۔

اس ضمن میں ڈویژنل کمرشل آفیسر جنید اسلم نے بتایا تھا کہ متاثر ہونے والی 2 بوگیاں اکانومی جبکہ ایک بزنس کوچ تھی اور ایک بوگی امیر حسین جبکہ دوسری تبلیغی جماعت کے نام پر بک کروائی گئی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ تبلیغی جماعت کے لیے بوگیاں کسی ایک شخص کے نام پر بک کروالی جاتی ہیں اور باقی تفصیلات ان کے امیر کے پاس ہوتی ہیں جس کے باعث تمام مسافروں کی شناخت فراہم نہیں کی جاسکتی البتہ انہوں نے یہ ضرور بتایا تھا کہ ایک بوگی میں 78 جبکہ دوسری بوگی 77 افراد کے لیے بکنگ کروائی گئی تھی۔