پاکستان

حیدرآباد شہر کو فراہم کیا جانے والا 60 فیصد پانی صاف نہیں

واسا کو دریائے سندھ اور نہروں سے حاصل ہونے والے پانی کی کلورینیشن کرنے کیلئے 10 کروڑ 50 لاکھ روپے سالانہ درکار ہیں،رپورٹ

حیدرآباد: واٹر اینڈ سینیٹیشن ایجنسی (واسا) کے فلٹریشن پلانٹ سے شہر میں فراہم کیا جانے والا 60 فیصد پانی کلورینیشن کے عمل سے نہیں گزر رہا کیوں کہ ادارہ اس حد تک مالی مشکلات کا شکار ہے کہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں بھی نہیں دے سکتا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک طرف جہاں یہ مسئلہ ہے وہیں دوسری جانب سندھ حکومت نے اب تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ حیدرآباد میں صوبائی محکمے کے جمع ہونے والے پانی اور نکاسی آب کے چارجز کی ادائیگی کو کس طرح یقینی بنائیں جبکہ صرف واسا کے ہی واجبات 3 ارب 30 کروڑ روپے تک جا پہنچے ہیں۔

واسا نے حیدرآباد کے محکمہ صوبائی حکومت کو 47 کروڑ 10 لاکھ روپے کا بل دیا جبکہ شہری سہولیات کے لیے محکمے کے بجٹ میں صرف 12 کروڑ 50 کروڑ روپے سالانہ مختص کیے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’دریائے سندھ سے کراچی، حیدر آباد کو انتہائی مضر صحت پانی فراہم ہورہا ہے‘

حیدرآباد کے اہم ترین شہری محکموں میں سے ایک واسا ضلع کے 4 بڑے فلٹریشن پلانٹس کو چلاتا ہے جو اس کے 4 میں سے 3 تعلقوں، شہر، قاسم آباد اور لطیف آباد کو پینے کا پانی فراہم کرتے ہیں جہاں تیزی سے رہائشی ہاؤسنگ اسکیمز، کمرشل پلازے، مالز بینکوئٹس تعمیر ہورہے ہیں۔

جامشورو روڈ پر قائم نئے اور پرانے فلٹر پلانٹس سے تقریباً 66 ملین گیلن روزانہ (ایم جی ڈی) پانی فراہم کیا جاتا ہے اور ہالہ ناکا اور پریٹ آباد کے پلانٹس سے 8، 8 ایم جی ڈی پانی کی فراہمی ہوتی ہے۔

سندھ میں سپریم کورٹ کے بنائے گئے کمیشن برائے پانی اور نکاسی آب کی ہدایات پر بحالی اقدامات کے تحت پرانے فلٹریشن پلانٹس کی صلاحیت کو 10 ایم جی ڈی سے بڑھا کر 20 ایم جی ڈی کردیا تھا اور نئے پلانٹس کی گنجائش 30 ایم جی ڈی سے 40 ایم جی ڈی کردی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: ایک گھنٹے میں پانی کا نظام ٹھیک کریں، سربراہ واٹر کمیشن

شہری ادارے کے 2 مختلف ذرائع کا کہنا تھا کہ ’واسا کو دریائے سندھ اور نہروں سے حاصل ہونے والے پانی کی کلورینیشن کرنے کے لیے 10 کروڑ 50 لاکھ روپے سالانہ درکار ہیں لیکن 66 ایم جی ڈی میں سے صرف 40 فیصد پانی کلورینیشن کے عمل سے گزر کر فراہم کیا جاتا ہے جبکہ بقیہ پانی اسی حالت میں صارف کو پہنچتا ہے جیسا آبی ذخائر میں ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پھٹکری اور کلورین لاہور کی کمپنی سے خریدی جاتی ہے جس کی ٹرانسپورٹیشن کی لاگت ملا کر مجموعی اخراجات 10 کروڑ 50 لاکھ سالانہ ہوتے ہیں لیکن حالیہ مالی تنگی کے سبب جب ملازمین کو تنخواہیں بھی ادا نہیں کی جارہی تو کلورینیشن کا عمل کیسے ہو۔

واضح رہے کہ واسا ہر ماہ اپنے صارفین کو 7 کروڑ روپے کے بل جاری کرتا ہے لیکن اس کی ریکوری 50 فیصد سے بھی کم ہے اور کئی وجوہات کی بنا پر واسا اس میں اضافہ نہیں کرپا رہا۔

یہ بھی پڑھیں: کشمور سے کراچی تک صاف پانی کی فراہمی ہماری ذمہ داری، مراد علی شاہ

90 کی دہائی میں واسا کو ملنے والی سبسڈی رکنے کے بعد سے واسا کو مالیاتی مسائل کا سامنا ہے، ادارہ مسلسل سندھ حکومت سے اپیل کرتا رہتا ہے کہ اس کی مدد کے لیے آگے آئے۔

ادارے کا بحران اس قدر سنگین ہے کہ گزشتہ 5 ماہ سے (گریڈ ایک سے گریڈ 19 کے) ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی بھی نہیں کی جارہی اور مزدور تنظیمیں تنخواہوں کی ادائیگیوں کی لیے احتجاج کررہی ہیں۔