پاکستان

قومی اسمبلی کا اجلاس: وزیراعظم کی عدم موجودگی، اپوزیشن کا احتجاج

وزیراعظم نے ایوان میں حاضر ہوکرسوالوں پر جواب دینے کا اعلان کیا تھا لیکن گزشتہ سہ ماہی میں ایوان میں نہیں آئے، اپوزیشن
|

وفاقی حکومت کی جانب سے مختصر نوٹس پر طلب کیے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا جبکہ وزیر اعظم عمران خان بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔

ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی صدارت میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رکن اسمبلی سید نوید قمر نے جلد بازی میں اجلاس طلب کرنے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے کیا منطق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘کئی اراکین کو اپنے حلقوں سے اسلام آباد پہنچنے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا’۔

سابق اسپیکر اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایاز صادق نے وزرا سے سوالات کے حوالے سے ڈپٹی اسپیکر سے کہا کہ ان تمام اراکین کے سوالوں کو موخر کریں جو اس وقت ایوان میں موجود نہیں ہیں۔

سابق وزیر اعطم و رہنما پیپلز پارٹی راجا پرویز اشرف نے بھی مختصر نوٹس پر اجلاس کی طلبی پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ‘کئی اراکین کراچی اور ملتان ایئرپورٹ پر بیٹھے ہوئے ہیں، بلوچستان سے لوگ نہیں آپارہے ہیں کیونکہ اجلاس کو 24 گھنٹے سے بھی کم وقت کے نوٹس پر طلب کیا گیا ہے’۔

مزید پڑھیں: 24 گھنٹے کے نوٹس پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب

انہوں نے کہا کہ ‘اراکین سوالوں کو موخر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ اکثر سوالوں کے جوابات تحریری شکل میں نہیں دیے گئے، جو ایک مذاق ہے’۔

راجا پرویز اشرف کا کہنا تھا کہ ‘یہ حکومت کی جانب سے غیر ذمہ داری کی انتہا ہے، حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا ہے اور ہم احتجاج رجسٹر کر رہے ہیں’۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ‘یہ ایوان حقیقی معنوں میں عوام کی نمائندگی نہیں کر رہا ہے، ہم قیمتوں میں اضافے پر بحث کرنا چاہتے ہیں’۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے کہا کہ ‘وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ اراکین کے سوالوں کے جوابات دینے کے لیے وہ خود ایوان میں آئیں گے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘وزیر اعظم اکتوبر سے شروع ہونے والی پوری سہ ماہی میں ایوان میں نہیں آئے جبکہ اجلاس 10 جنوری کو شیڈول تھا لیکن حکومت نے اچانک طلب کرلیا’۔

یہ بھی پڑھیں:کیا نیب کا قانون صرف سیاستدانوں کے لیے ہے؟ رضا ربانی

خواجہ آصف نے کہا کہ حکومت ایوان کے قواعد و ضوابط کا تقدس برقرار رکھے۔

اپوزیشن اراکین کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وزیر مواصلات مراد سعید نے کہا کہ ‘حکومت نے پہلے ہی وزیراعظم سے سوال کی اجازت کے لیے ایک گھنٹے کی ترمیم پیش کردی ہے، اس معاملے پر اب بھی بحث ہورہی ہے’۔

مراد سعید نے کہا کہ ‘مشکل وقت گزر چکا ہے اور نیا سال ترقی اور خوشحالی کا سال ہوگا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘حکومت 8 جنوری کو احساس پروگرام شروع کرنے جارہی ہے اور تمام اراکین اس میں شرکت کریں’۔

خیال رہے کہ حکومت نے گزشتہ روز اچانک قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا تھا حالانکہ 16 دسمبر کو اجلاس بھی اچانک ملتوی کردیا گیا تھا جبکہ ایڈوائزری کمیٹی نے طے کیا تھا کہ اجلاس 20 دسمبر تک جاری رہے گا لیکن ایسا نہیں ہوسکا تھا۔

مزید پڑھیں:قومی اسمبلی میں بھارت کے ‘مسلم مخالف’ قانون کے خلاف قرارداد منظور

دوسری جانب سینیٹ کا اجلاس بھی طلب کرلیا گیا تھا جہاں رضاربانی سمیت اپوزیشن اراکین نے حکومت کے اقدامات پر تنقید کی۔

اجلاس طلب کرنے پر اپوزیشن حیران

حکومت کی جانب سے 24 گھنٹے کے نوٹس پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب کرنے پر اپوزیشن نے حیرت کا اظہار کیا تھا اور سوال اٹھایا تھا کہ ایسی کیا ضرورت تھی کہ پارلیمان کے اجلاس اتنی عجلت میں بلائے گئے جبکہ حکومت کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ مقننہ کو حالیہ اہم پیش رفت پر اعتماد میں لینے کے لیے کیا گیا۔

سینیٹر رضا ربانی نے اس حوالے سے کہا کہ انہیں 24 گھنٹے میں اجلاس طلب کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آرہی جبکہ دھند کے باعث دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے اراکین کو اسلام آباد پہنچنے میں دشواری ہوگی۔

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ سینیٹ کا اجلاس اپوزیشن کی جانب سے درخواست دینے کے ایک روز بعد ہی طلب کرلیا گیا۔

قبل ازیں معمول کے مطابق سینیٹ کے آخری اجلاس 29 اگست سے 3 ستمبر تک ہوئے تھے جبکہ قومی اسمبلی کا گزشتہ اجلاس 16 دسمبر کو اچانک ملتوی ہوگیا تھا۔

سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ آئین کی دفعہ 54 کے تحت صدر مملکت کو جب مناسب لگے وقتاً فوقتاً ایک ایوان یا پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس طلب اور ملتوی کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:سینیٹ میں ’آرڈیننس کے ذریعے حکمرانی‘ پر تنازع شدت اختیار کرگیا

رکن قومی اسمبلی شازیہ مری کا کہنا تھا کہ ’عقل سے خالی حکومت پارلیمان کو بھی اسی بے ہنگم انداز میں چلانا چاہتی ہے جس طرح ملک چلا رہی ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ منگل کی شام 5 بجے اراکین اسمبلی کو میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ اجلاس اگلے ہی روز ہوگا جس کے لیے نہ تو اراکین کو اعتماد میں لیا گیا نہ ہی کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوا۔

سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپوزیشن کا ردِ عمل حیرت انگیز ہے کیوں کہ اجلاس انہی کی درخواست پر بلایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب اجلاس کے لیے درخواست سینیٹ سیکریٹری کے پاس جمع کروائی گئی تو انہوں نے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجا ظفرالحق اور شیری رحمٰن کے ساتھ دیگر پارلیمانی رہنماؤں سے رابطہ کر کے بتایا تھا کہ حکومت ان کی درخواست پر سینیٹ کا سیشن طلب کر رہی ہے جس کے لیے 14 روز درکار ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ اجلاس سے لے کر اب تک متعدد اہم پیش رفت ہوچکی ہیں جس پر حکومت ایوان کو اعتماد میں لینا چاہتی ہے اور وزیراعظم عمران خان بھی سینیٹ اجلاس میں شرکت کریں گے۔

مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کا 150 واں روز، حملے میں 2 بھارتی فوجی ہلاک

سام سنگ کا گلیکسی ایس 11 کو ایس 20 کا نام دینے کا فیصلہ

ایرانی سپریم لیڈر کا ٹرمپ کو جواب، 'ہر خطرے کا مقابلہ کریں گے'