پاکستان

'پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سے سالانہ ایک لاکھ 28 ہزار اموات ہوتیں ہیں'

ملک میں 43 فیصد آلودگی کی وجہ کم معیاری تیل کی درآمد ہے جسے ٹرانسپورٹ اور توانائی کے شعبے استعمال کیا جاتا ہے، رپورٹ

اسلام آباد: ایڈیشنل سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہر سال ایک لاکھ 28 ہزار افراد کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے ارکان کو بتایا گیا کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اوسط عمر میں 2 سے 5 برس تک کمی آسکتی ہے۔

سینیٹرز کو آگاہ کیا گیا کہ ملک میں 43 فیصد آلودگی کم معیاری تیل کی درآمد، ٹرانسپورٹ اور پاور سیکٹر کی جانب سے استعمال کی وجہ سے ہے۔

علاوہ ازیں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان 2021 تک ماحول دوست ایندھن کا استعمال نہیں کرسکتا۔

مزید پڑھیں: فضائی آلودگی صحت کیلئے سب سے بڑا ماحولیاتی خطرہ قرار

تاہم سینیٹرز یہ جان کر پریشان ہوئے کہ آئل سیکٹر میں پاکستان کی آخری پالیسی 1997 میں بنائی گئی تھی اور اس کے بعد سے کسی نے ایسی پالیسی نہیں بنائی جو ٹیکنالوجی، ترقی اور دیگر ضروریات کے مطابق ہو۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکر کی سربراہی میں انسانی حقوق کی کمیٹی نے لاہور میں اسموگ کے بعد موسمیاتی تبدیلی کا معاملہ اٹھایا تھا۔

قائمہ کمیٹی نے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں وزیر موسمیاتی تبدیلی، حکومت پنجاب کے نمائندوں، وزارت پیٹرولیم، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) اور آئل ریفائنریز کے نمائندوں کو شرکت کی دعوت دی تھی۔

اجلاس میں ایڈیشنل سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی جودت ایاز نے کمیٹی کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کہ وجہ سے براہ راست یا بالواسطہ سالانہ ایک لاکھ 28 ہزار اموات ہوتی ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ بچے اعضا کی بیماریوں سے لڑنے میں کمزور ہورہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 43 فیصد آلودگی درآمد کیے گئے غیرمعیاری تیل کی وجہ سے ہے، جو ٹرانسپورٹ انڈسٹری اور انرجی سیکٹر کی جانب سے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا کے 90 فیصد انسان آلودہ فضا میں سانس لینے پر مجبور

ایڈیشنل سیکریٹری نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں یورو-2 معیار لاگو ہوتا ہے جبکہ دنیا یورو-6 ٹیکنالوجی پر پہنچ چکی ہے‘۔

دوران اجلاس سینیٹرز کو بتایا گیا کہ کم پیداوار اور صحت کے اخراجات سے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے 9 فیصد شرح نمو متاثر ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان مضبوط تعاون کی ضرورت ہے اور ملک بھر میں معیار یکساں ہونے چاہئیں۔

واضح رہے کہ ملک کی 5 آئل ریفائنریز تاحال قدیم ہیں اور ہمارے تیل میں میگینیشیم اور سلفر کے اجزا شامل ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ریفائننگ پالیسی 1997 میں آئی تھی اور اس کے بعد سے لے کر اب تک کوئی تجدید شدہ فریم ورک سامنے نہیں آیا۔

تاہم وزارت نے ریفائنریز کو ٹیکنالوجی اور اس کے استعمال کی اپ گریڈنگ سے متعلق ہدایات اور قواعد و ضوابط جاری کیے ہیں۔

انہوں نے کہا اگر معمول کے معائنے کے ساتھ گاڑیوں کو اپ گریڈ نہیں کیا جاتا تو یورو-4 اور یورو-5 کے متضاد اثرات ہوں گے، ساتھ ہی ایندھن کے معیار اور اخراج پر بیک وقت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

علاوہ ازیں قائمہ کمیٹی نے تمام متعلقہ محکموں کو اس مسئلے پر تجاویز پیش کرنے کی ہدایت کی تاکہ قانون سازی اور پالیسی سے متعلق اقدامات کیے جاسکیں۔

سینیٹر مصطفیٰ کھوکھر نے کہا کہ انہوں نے لاہور میں اسموگ کی وجہ سے معاملے کا نوٹس لیا لیکن وہ اس لیے بھی تبادلہ خیال کرنا چاہتے تھے کیونکہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا پانچواں ملک ہے۔