پاکستان

صدر مملکت نے غلط فہمی کے نتیجے میں ریفرنس بھیجا، وکیل جسٹس عیسیٰ

سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیجنے سے قبل ڈاکٹر عارف علوی نے آزاد رائے قائم نہیں کی، حامد خان
|

اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن(ایس سی بی اے ) اور دیگر درخواستوں کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل نے سپریم کورٹ میں کہا کہ صدرِ مملکت عارف علوی نے غلط فہمی کی بنیاد پر ریفرنس بھیجا کہ وہ وزیراعظم کی سفارش کے پابند تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ 10 رکنی بینچ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے وکیل نے کہا کہ ایک جج کے خلاف مس کنڈکٹ کے الزامات سے متعلق ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کو بھیجنے سے قبل صدرِ مملکت کو آزاد رائے دینی تھی۔

حامد خان نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی الجھن تھی کیونکہ وزیراعظم کی جانب سے معلومات بھیجی گئی تھیں اور صدر کو اس پر ایک رائے قائم کرنی تھی۔

وکیل نے کہا کہ صدرِ مملکت کو آزادانہ طور پر خود کو مطمئن کرنا تھا کیونکہ جب معاملہ وزیراعظم یا کابینہ کی جانب سے ارسال کیا وہ معلومات تھیں جسےواضح کرنے کی ضرورت تھی۔

مزید پڑھیں: 'جسٹس عیسیٰ کیس میں ریاستی جاسوسی کے ذریعے مواد اکٹھا کیا گیا'

حامد خان کے دلائل آج (18 دسمبر) کو مکمل ہونے کا امکان ہے، وہ جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس کے خلاف 4 درخواستوں کی نمائندگی کررہے ہیں۔

درخواستیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد آصف ریکی،بلوچستان بار کونسل اور پنجاب بار کونسل کے نائب چیئرمین شاہنواز اسمٰعیل کی جانب سے دائر کی گئیں تھیں۔

گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس یحییٰ آفریدی نے حیرانی کا اظہار کیا کہ وزیراعظم کی جانب سے جج کے خلاف معلومات بھیجنے کے بعد کوئی کیسے توقع کرسکتا ہے کہ صدر پہلے ابتدائی انکوائری کریں گے۔

جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس میں مزید کہا تھا کہ اگر صدرِ مملکت انکوائری کرتے ہیں تو وہ کون سے ذرائع استعمال کریں گے جب ایگزیکٹو پہلے ہی معلومات بھیج چکا ہو۔

مزید ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ نجی شکایت دہندہ وحید ڈوگر کی جانب سے معلومات دی گئی تھیں لیکن ایگزیکٹو نے اسے ایک شکل دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ ججز کی نگرانی کی تحقیقات کا حکم دے، وکیل جسٹس عیسیٰ

وکیل نے کہا کہ چونکہ صدر نے ریفرنس میں شامل مواد نہیں دیکھا انہوں نے اسے سپریم جوڈیشل کونسل بھیجنے سے قبل آزاد رائے قائم نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ جب ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھیجا گیا تو وزیراعظم کی رائے کو صدر کی رائے کے طور پر لیا گیا تھا۔

حامد خان نے دلائل میں کہا کہ جب آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت صدر کو ریفرنس جمع کروایا گیا تو ایگزیکٹو کی سفارش کی ضرورت نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح جج کو شوکاز نوٹس جاری کرنے سے قبل سپریم جوڈیشل کونسل کو ابتدائی کارروائی کرنی تھی۔

وکیل نے کہا کہ چونکہ صدرِ مملکت کو ریاست کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے خصوصی پوزیشن حاصل ہے اور وہ 3 ستونوں قانون سازی، ایگزیکٹو اور عدلیہ کے ساتھ کام کرتے ہیں تو انہیں غیر سیاسی اور غیر جانبدار شخصیت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے صدارتی ریفرنس جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ ججز کی نگرانی کی تحقیقات کا حکم دے، وکیل جسٹس عیسیٰ

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا 10 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔