پاکستان

حکومت کا میڈیا کے مسائل حل کرنے کیلئے کمیٹی بنانے کا اعلان

کمیٹی کی سربراہی وزیراعظم خود کریں گے جس میں صحافتی تنظیموں کے عہدیداران اور دیگر اسٹیک ہولڈرز شامل ہوں گے، معاون خصوصی

حکومت نے میڈیا ہاؤسز میں کام کرنے والے افراد کی نوکریوں، تنخواہوں کے مسائل، اشتہارات کی مد میں حکومت کے ذمہ واجب الادا رقم اور کچھ صحافیوں کی جانب سے مبینہ طور پر مخصوص پروپیگنڈے جیسے مسائل کے تدارک کے لیے کمیٹی قائم کردی۔

وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کمیٹی کے قیام کےبارے میں آگاہ کیا جس میں صحافتی تنظیموں کے عہدیداران حکومتی اراکین اور دیگر اسٹیک ہولڈرز شامل ہوں گے۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ میڈیا کے 85 فیصد اشتہارات نجی شعبے سے منسلک ہوتے ہیں لہذا نجی کاروباری شعبے میں مشکلات آنے کی وجہ سے اثرات میڈیا ہاؤس پر مرتب ہوئے اور انہوں نے اپنے کارکنان کی نوکریاں بھی ختم کیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان مسائل کا نہ صرف وزیراعظم نے نوٹس لیا بلکہ میڈیا مالکان کے ساتھ براہِ راست گفتگو کی کہ وہ ایسے اقدامات کریں کہ ورکرز کا روزگار برقرار رکھنا یقینی بنایا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: ’میڈیا کے لیے اشتہارات کی نئی پالیسی میں تبدیلیاں لارہے ہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ اپنی کوششوں میں کہیں حومت کامیاب ہوئی اور کہیں نجی میڈیا ہاؤس تک اپنی آواز طاقت سے نہ سنا سکے جس پر وزیراعظم عمران خان نے فیصلہ کیا کہ اس مسئلے کو ایک ہی مرتبہ بیٹھ کر حل کرلیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ جو ڈس انفارمیشن پھیلی ہوئی ہے اسے ختم کرنے اور ایک مخصوص سوچ کے حامل لوگوں کی جانب سے صحافتی آزادی کی آڑ میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے تدارک کے لیے وزیراعظم نے ورکرز کے مسائل میڈیا مالکان کے ایشوز اور اس صنعت کو درپیش مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔

معاون خصوصی کےمطابق مذکورہ کمیٹی کی سربراہی وزیراعظم خود کریں گے جبکہ معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کووآرڈینیٹر ہوں گی۔

انہوں نے بتایا کہ کمیٹی میں فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر، آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی کے صدر، پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین، سی پی این ای کے نمائندے اور پارلیمنٹری ایسوسی ایشن کے صدر اور میڈیا کے ساتھ منسلک دیگر اسٹیک ہولڈرز کے نمائندے شامل ہوں گے۔

مزید پڑھیں: ’میڈیا ورکرز کی مرضی کے بغیر کوئی قانون ان پر مسلط نہیں کیا جائے گا‘

ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ اس کمیٹی کے ذریعے حکومت میڈیا ورکرز اور مالکان کے درمیان پل کا کردار ادا کرے گی۔

اس کے علاوہ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ میڈیا ہاؤسز کے اشتہارات کی مد میں جو واجبات حکومت کے ذمہ واجب الادا ہیں انہیں درست کر کے حل کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ جن میڈیا ہاؤسز مالکان کے ذمہ ان کے کارکنان کی تنخواہیں واجب الادا اور ان کی نوکریوں سے منسلک دیگر مسائل ہیں ان کا تدارک کیا جائے گا۔

انہوں نے امید ظاہر کی سال 2020 میں میڈیا مالکان اور کارکنان کے مابین پائی جانے والی وسیع خلیج کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔

فردوس عاشق اعوان کا مزید کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اور صحافی برداری کے درمیان دوستانہ روابط قائم ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: میڈیا ہاؤسز کو ’بزنس ماڈل‘ کی تبدیلی کا مشورہ کیوں؟

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی دباؤ سے آزاد اس فورم پر ان افراد کو بھی بلایا جائے گا جو آزادی اظہار پر قدغن کی بات کرتے ہیں اور ان کی بات اور تحفظات کو سنجیدگی سے سنا جائے گا۔

معاون خصوصی نے کہا کہ میں کمیٹی سے درخواست کروں گی کہ جو صحافی آزادی صحافت کے نام پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں انہیں بلایا جائے اور پوچھا جائے کہ آزادی صحافت سے ان کی کیا مراد ہیں جو اگر انہیں واقعی دیکھنی ہے تو مقبوضہ کشمیر کے حالات دکھائے جائیں۔

فردوس عاشق اعوان کے مطابق کچھ صحافی ہر بات کو ایک مخصوص نقطہ نظر سے پیش کرتے ہیں لہٰذا وہ صحافی جو اپنے ذاتی حصار میں بیٹھ کر میڈیا کی آزادی کے گرویدہ ہیں انہیں ہم بلا کر ان سے گلے شکوے دور کرنے کے لیے تیار ہیں۔

معاون خصوصی نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن رکن کی جانب سے معلومات کمیشن کے حوالے سے سوال پوچھنے پر تقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ انفارمیشن کمیشن گزشتہ برس2 نومبر کو تشکیل دیا گیا تھا جس کے کمشنر تعینات ہوچکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ انفارمیشن کمیشن اپنے فرائض مکمل طور پر ادا کررہا ہے جسے رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت 215 درخواستیں موصول ہوئی اور 100 کے قریب کیسز نمٹائے جاچکے ہیں لہٰذا پاکستان کے سب سے بڑے فورم پر بات کرنے سے قبل حقائق کی درستگی ضروری ہے۔