وکلا نے صوبائی وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان پر بھی تشدد کیا
پی آئی سی پر دھاوے کے دوران پنجاب کے وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان بھی ہسپتال پہنچے، تاہم ان پر بھی مشتعل افراد جو بظاہر وکلا نظر آرہے تھے انہوں نے تشدد کیا۔
مذکورہ معاملے کی ایک ویڈیو سامنے آئی، جس میں فیاض الحسن چوہان پر تشدد اور انہیں بالوں سے پکڑتے ہوئے دیکھا گیا۔
اس حوالے سے صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ 'وکلا نے انہیں اغوا' کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ جنہوں نے ظلم کیا ہے انہیں معاف نہیں کیا جائے گا اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی ہوگی اور انہیں نشان عبرت بنایا جائے گا۔
فردوس عاشق اعوان نے لکھا کہ لاقانونیت کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا، قانون کی وردی پہننے والوں کو قانون کی پاسداری کرنا ہوگی۔
وزیراعظم کا نوٹس
ادھر پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی کی بگڑتی صورتحال پر وزیراعظم عمران خان نے بھی نوٹس لے لیا۔
وزیراعظم عمران خان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکریٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کرلی۔
وزیراعلیٰ کا نوٹس
دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار جو واقعے کے وقت اسلام آباد میں تھے، انہوں نے بھی پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وکلا کی جانب سے ہنگامہ آرائی کے واقعہ کا سخت نوٹس لے لیا۔
انہوں نے سی سی پی او لاہور اور صوبائی سیکریٹری سپشلائزڈ ہیلتھ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
وزیراعلیٰ نے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے ذمہ داروں کے خلاف قانون کے تحت کارروائی عمل میں لانے کی ہدایت کی۔
مزید پڑھیں: لاہور: وکلا کا پولیس افسر پر تشدد، چیف جسٹس کا ازخود نوٹس
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ کوئی قانون سے بالا تر نہیں امراض قلب کے ہسپتال میں ایسا واقعہ ناقابل برداشت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مریضوں کے علاج معالجے میں رکاوٹ ڈالنا غیر انسانی اور مجرمانہ اقدام ہے، پنجاب حکومت ذمہ داروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرے گی۔
ملک گیر ہڑتال کا اعلان
ادھر ینگ کنسلٹنٹ ایسوسی ایشن (وائی سی اے) نے اس پرتشدد مظاہرے کے بعد ملک گیر ہڑتال کا اعلان کردیا گیا۔
وائی سی اے کے صدر ڈاکٹر حمید بٹ نے کہا کہ کل (جمعرات) کو پنجاب بھر میں کوئی کنسلٹنٹ ڈیوٹی پر نہیں جائے گا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وکلا کی جانب سے توڑ پھوڑ قابل مذمت ہے۔
کشیدہ حالات کے پیش نظر رینجرز طلب
بعد ازاں صوبائی حکومت نے لاہور میں کشیدہ حالات کے پیش نظر رینجرز کو غیر معینہ مدت کے لیے طلب کر لیا۔
شہر میں رینجرز کی تعیناتی سے متعلق وزارت داخلہ سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ رینجرز کی 10 پلاٹون شہر کے مختلف مقامات پر تعینات ہوں گی، جبکہ 2 کمپنیاں بیک اَپ میں ہوں گی۔
ان مقامات میں گورنر ہاؤس، پنجاب اسمبلی، جی پی او چوک، پنجاب سول سیکریٹریٹ، ایوان عدل، سپریم کورٹ آف پاکستان، لاہور ہائی کورٹ، آئی جی آفس اور پی آئی سی شامل ہیں۔
آج کے واقعے سے سر شرم سے جھک گیا، اعتزاز احسن
لاہور میں پیش آنے والے واقعے پر سینئر وکیل اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما اعتزاز احسن نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کا واقعہ انتہائی شرمناک ہے، آج کے واقعے سے میرا سر شرم سے جھک گیا۔
انہوں نے کہا کہ لاہور میں 30 ہزار وکلا ہیں، لاہور بار ایسوسی ایشن کے ممبران ہی کوئی 25 ہزار ہے لیکن یہ کام کوئی 200 سے 300 وکلا نے کیا ہے، جس میں سے بھی زیادہ تر جنوری میں آنے والے انتخابات کے امیدوار ہوں گے۔
دوران گفتگو ان کا کہنا تھا کہ جس قسم کا واقعہ آج کیا گیا وہ بہت ہی شرمناک ہے، اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے جبکہ جو بھی پرتشدد کارروائی میں نظر آتا ہے اسے انتخابات میں حصہ نہیں لینے دینا چاہیے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ اس واقعے سے دیگر وکیلوں کی عزت خراب ہوئی، میرا اس شعبے سے 50 سال سے زائد تعلق رہا ہے لیکن آج میرا سر شرم سے جھک گیا کہ ہم کالے کوٹ کی کیا عزت بنا رہے ہیں۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سب ایک ہسپتال پر کیا گیا، کالے کوٹ والوں نے شیشے توڑے، سرجیکل وارڈ میں داخل ہوگئے تاہم اس طرح کا کام بالکل نہیں ہونا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ میری یہ رائے ہوگی کہ جن وکلا نے یہ سب کیا ہے انہیں انتخاب میں ووٹ نہیں دینا چاہیے۔
پاکستان بار کونسل کا اظہار مذمت
ادھر پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین سید امجد شاہ نے ایک نیوز چینل سے گفتگو میں ہنگامہ آرائی کی مذمت کی اور کہا کہ 'یہ چند وکلا کا انفرادی عمل تھا'۔
انہوں نے کہا کہ 'پہلے ڈاکٹرز نے بدتمیزی کی جس کے بعد وکلا مشتعل ہوئے، تاہم ہم کسی طرح کے تشدد کی حمایت نہیں کرتے'۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ پنجاب بار کونسل کے چیئرمین کے چیئرمین کی سربراہی میں واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کردی گئی۔