یہ بات وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں سامنے آئی۔
رپورٹ میں یو بی ایس اور جاپانی ٹیکنالوجی لیب فوماہوٹ کے تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا گیا کہ امریکی پابندیوں کے نتیجے میں ہواوے نے فون کی تیاری کے لیے ایسے سپلائرز تلاش کرلیے ہیں جن کا امریکا سے کوئی تعلق نہیں۔
رپورٹ کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ ہواوے نے ایمپلی فائرز کو اپنی ذیلی کمپنی ہائی سیلیکون کی مدد سے تیار کیا جبکہ آڈیو چپ کے لیے امریکی کمپنی کرس لاجگ کی جگہ ڈچ کمپنی این ایکس پی کی خدمات حاصل کی۔
یہ سب امریکی سپلائرز پر انحصار ختم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
خیال رہے کہ امریکا کی جانب سے رواں سال مئی میں ہواوے کو بلیک لسٹ کیا گیا تھا اور اس کے نتیجے میں وہ امریکی کمپنیوں سے آلات و پرزہ جات کی سپلائی سے محروم ہوگئی تھی اور ان کے ساتھ کاروبار امریکی حکومتی لائسنس سے مشروط کردیا گیا تھا۔
اس حوالے سے گزشتہ ماہ کچھ امریکی کمپنیوں بشمول مائیکرو سافٹ کو لائسنس بھی جاری کیے گئے جبکہ کچھ کمپنیوں کو انکار کیا گیا، مگر ان کمپنیوں میں گوگل کا نام شامل نہیں۔
ہواوے کے بانی نے اس حوالے سے گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم جب تک ممکن ہے گوگل کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیں گے مگر ہم بڑے پیمانے پر بیک اپ پلان پر بھی کام کررہے ہیں۔
ہواوے کی جانب سے رواں سال اگست میں اپنا آپریٹنگ سسٹم ہارمونی متعارف کرایا گیا تھا جبکہ اپنا ایپ اسٹور بھی پیش کیا جس میں فی الحال 45 ہزار ایپس ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہیں، اس کے مقابلے میں گوگل پلے اسٹور میں یہ تعداد 28 لاکھ ہے۔