مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ: سپریم کورٹ کے اہم ریمارکس و نکات
سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف دائر درخواست پر مسلسل 3 روز تک سماعت ہوئی اور مختصر فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط منظوری دے دی۔
ملکی تاریخ کے اس اہم ترین کیس پر جہاں سب کی نظریں جڑی رہی وہی عدالتی ریمارکس نے کئی سوالات کو جنم دیا جبکہ اٹارنی جنرل کے جوابات سے کئی قانونی سقم بھی سامنے آئے۔
26 نومبر سے شروع ہونے والی اس کیس کی سماعت کے دوران بہت سے اہم ریمارکس اور نکات سامنے آئے جن میں سے چند یہاں بیان کیے جارہے ہیں۔
عدالت کو درخواست واپس لینے کے لیے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک درخواست ملی، جسے مسترد کردیا گیا۔ بعد ازاں درخواست پر آئین کے آرٹیکل 184 (سی) کے تحت عوامی مفاد کے تحت سماعت کی گئی۔ چیف جسٹس نے واضح کیا صرف صدر مملکت، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرسکتے، وزیراعظم کو اس کا اختیار نہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ توسیع صدر کی منظوری کے بعد کی گئی، سمری کو کابینہ سے بھی منظور کروایا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صدر نے 19 اگست کو توسیع کی منظوری دی تو 21 کو وزیراعظم نے کیسے منظوری دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلے لیٹر جاری ہوا پھر وزیراعظم کو بتایا گیا کہ آپ کا اختیار نہیں۔ عدالت میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ کابینہ کے 25 اراکین میں سے 11 نے آرمی چیف کی توسیع پر ہاں کی جبکہ 14 ارکان نے رائے نہیں دی۔ سمری میں غلطی سامنے آنے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سمری میں توسیع کا لفظ استعمال کیا گیا جبکہ ازسر نو تقرر کیا جارہا ہے۔ پہلے روز ہی عدالت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کردیا۔ سپریم کورٹ نے اس کیس میں آرمی چیف کو خود فریق بنایا اور جنرل باجوہ سمیت وفاقی حکومت و وزارت دفاع کو نوٹس جاری کردیے۔ اسی روز عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ علاقائی سیکیورٹی سے نمٹنا فوج کا بطور ادارہ کام ہے کسی ایک افسر کا نہیں۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ علاقائی سیکیورٹی کی وجہ مان لیں تو فوج کا ہر افسر دوبارہ تعیناتی چاہے گا۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع یا نئی تعیناتی کا قانون جواز فراہم نہ کرسکے۔ عدالت کی جانب سے یہ نکتہ بھی سامنے آیا کہ آرمی رولز کے تحت صرف ریٹائرمنٹ کو عارضی طورپر معطل کیا جاسکتا ہے۔ پہلے روز یہ ریمارکس بھی سننے کو ملے کہ ریٹائرمنٹ سے پہلے ریٹائرمنٹ معطل کرنا گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنے والی بات ہے۔ ازخود نوٹس کی رپورٹس پر چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ہم نے ازخود نوٹس نہیں لیا، میڈیا پر غلط خبریں چلیں۔ چیف جسٹس کے درخواست گزار ریاض راہی سے سوالات کیے، جس پر درخواست گزار نے جواب دیا کہ حالات مختلف پیدا ہوگئے ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ جن خامیوں کی نشاندہی کی گئی انہیں تسلیم کرکے تصحیح کی گئی۔ انور منصور کے مطابق توسیع کے حوالے سے قانون نہ ہونے اور کابینہ کے صرف 11 ارکان کے ہاں میں جواب دینے کا تاثر غلط تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے وہی لکھا جو آپ نے دستاویزات میں دیا۔ کابینہ اراکین کے جواب سے متعلق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ رول 19 میں لکھا ہے کہ جن کے جواب کا انتظار ہو وہ ہاں تسلیم ہوگا۔ انور منصور نے کہا کہ آرٹیکل 243 کے مطابق صدر مملکت، افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں، اسی آرٹیکل کے تحت صدر، وزیراعظم کے مشورے پر افواج کے سربراہ تعینات کرتے ہیں۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا آرمی چیف حاضر سروس افسر بن سکتا ہے یا ریٹائر جنرل بھی؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ شاید ریٹائر جنرل بھی بن سکتا ہو لیکن آج تک ایسی کوئی مثال نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کا معاملہ انتہائی اہم ہے، سب کو سنیں گے۔ عدالت عظمیٰ کے سب سے اعلیٰ ترین جج نے یہ بھی ریمارکس دیے ماضی میں 5 یا 6 جنرلز خود کو توسیع دیتے رہے ہیں، 10، 10 سال تک توسیع لی گئی لیکن کسی نے پوچھا تک نہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لیفٹیننٹ جنرل 57 سال کی عمر میں 4 سال کی مدت مکمل کر کے ریٹائر ہوتے ہیں، ان کے علاوہ کہیں بھی مدت کا تعین نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کابینہ کی سفارش ضروری نہیں تو 2 مرتبہ معاملہ کابینہ کو کیوں بھیجا؟ سماعت میں چیف جسٹس نے کہا کہ اگر جنگ ہورہی ہو تو پھر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں عارضی تاخیر کی جاسکتی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ جو ترمیم کرکے لائے ہیں وہ تو آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں۔ اٹارنی جنرل نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کو جسٹس کیانی کہہ دیا۔ عدالت نے انہیں ٹوکا اور کہا کہ وہ جسٹس نہیں جنرل کیانی تھے۔ عدالت نے ریمارکس دیے قانون کے مطابق آرمی چیف دوران جنگ افسران کی ریٹائرمنٹ روک سکتے ہیں لیکن حکومت آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کو روکنا چاہتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ بظاہر تعیناتی میں توسیع آرمی ریگولیشنز کے تحت نہیں دی گئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بعض اوقات سختی سے چھڑی ٹوٹ جاتی ہے، عدالت کو قانون پر اتنا سخت نہیں ہونا چاہیے۔ عدالت کو یہ بتایا گیا کہ جنرل قوم کا افسر ہوتا ہے، جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ عدالت کے سامنے سوال چیف کا ہے جنرل کا نہیں۔ جسٹس منصور علی نے پوچھا کہ چیف آف آرمی اسٹاف میں اسٹاف کا مطلب کیا ہے، خالی چیف آف آرمی بھی تو ہوسکتا تھا۔ چیف جسٹس نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ کہیں گربڑ ہے ہم سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ آرمی چیف کسی کو بھی نوکری سے نکال سکتے ہیں، آرمی چیف کو محدود مگر وفاقی حکومت کو مکمل اختیار ہیں۔ اٹارنی جنرل کے مطابق فوج کوئی جمہوری ادارہ نہیں، دنیا بھر میں فوج کمانڈ پر ہی چلتی ہے۔ چیف جسٹس نے فوجی افسر کے حلف نامے سے متعلق یہ ریمارکس دیے کہ فوجی حلف اٹھاتے ہیں کہ ملک اور آئین کا وفادار رہوں گا۔ ملک کے اعلیٰ ترین جج نے ریمارکس دیے کہ فوج کا حلف ہے کہ جہاں ضرورت ہوئی ملک کے لیے جان دوں گا، یہ بہت بڑی بات ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'میں خود کو کسی سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں کروں گا' یہ جملہ بھی حلف کا حصہ ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ چیف آف آرمی اسٹاف فوجی معاملات پر حکومت کا مشیر بھی ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل کے مطابق حکومت ریٹائرمنٹ کو محدود اور معطل کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریٹائرمنٹ محدود یا معطل، مخصوص حالات میں کی جا سکتی ہے، آرمی چیف دوران جنگ افسران کو ریٹائرمنٹ سے روک بھی سکتے ہیں۔ عدالت نے فوج کی جانب سے سابق فوجی افسران کو دی جانے والی سزا کی تفصیلات طلب کیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 4 اسٹار جنرل کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں، لیفٹیننٹ جنرل تک ریٹائرمنٹ کی عمر موجود ہے۔ عدالت نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ آرمی چیف اور جنرل کو الگ نہیں کیا جاسکتا، مجھے ان کے جنرل ہونے سے کوئی مسئلہ نہیں، چاہے وہ ساری زندگی ہی جنرل رہیں، معاملہ یہ ہے کہ کیا انہیں بطور آرمی چیف توسیع مل سکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہاں تو یہ بھی نہیں لکھا کہ آرمی چیف، آرمی سے ہوگا، ایسے تو آپ کو بھی آرمی چیف بنا سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آئین میں ایسی کوئی ممانعت نہیں، ریٹائرڈ افسران کی آرمی چیف کے عہدے پر تعیناتی پر بھی پابندی نہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف جب تک کمانڈ دوسرے جنرل کے سپرد نہیں کرتے تب تک ریٹائرڈ تسلیم نہیں کیا جاتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم نے سفارش دوبارہ تعیناتی کی تھی، صدر کی جانب سے توسیع کا نوٹیفکیشن جاری ہوگیا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ کسی نے دوبارہ سمری کو پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کی، کیا لکھا ہے اور کیا بھیج رہے ہیں یہ بھی پڑھنے کی زحمت نہیں کی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک جانب آپ کہتے ہیں کہ ریٹائرڈ ہورہے ہیں، پھر کہتے ہیں ریٹائر نہیں ہورہے، پھر کہا جاتا ہے آرمی چیف ریٹائر ہوتے ہی نہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ وزارت قانون کی پوری کوشش ہے کہ آرمی کو بغیر کمانڈ رکھا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے تو اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی نہیں ہوتی جیسے آرمی چیف کی تعیناتی کی جارہی ہے، آرمی چیف کو شٹل کاک بنا دیا گیا۔ ریمارکس می عدالت نے یہ بھی کہا کہ آج آرمی چیف کے ساتھ یہ ہو رہا تو کل صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ہوگا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوجی باعزت ہوتے ہیں لیکن وزارت قانون نے مسودوں میں غلطیاں کرکے ان کو بے عزت کرنے کی کوشش کی۔ یہ ریمارکس بھی آئے رات کو اتنے بڑے دماغ بیٹھے لیکن پھر بھی غلطیوں پر غلطیاں کیں، نوٹیفکیشن جاری کرنے والوں کی ڈگریاں چیک کروائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ججز صرف اللہ کو جوابدہ ہیں۔ عدالت نے 3 معاملات سامنے رکھے، پہلا معاملہ قانونی تھا، دوسرا طریقہ کار سے متعلق تھا اور تیسرا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی وجوہات تھیں۔ تیسرے روز سماعت میں سابق فوجی سربراہ جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کیمدت ملازمت میں توسیع، جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویز طلبکی گئیں۔ نئی سمری پر عدالت کا ذکر ہونے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ بوجھخود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، اپنا کام خود کریں،سمری سے عدالت کا نام نکالیں۔ چیف جسٹس نے عدالت کی ایڈوائس والا حصہ سمری سے نکالنے کا کہا اورریمارکس دیے صدر اگر ہماری ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے۔ جسٹس منصور نے نکتہ اٹھایا کہ 3 سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیںنہیں ہے، سمری میں آرمی چیف کی تنخواہ کا ذکر ہے نہ مراعات کا تذکرہ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کل آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارتی اور سیآئی اے ایجنٹ کہا گیا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایاگیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نوٹیفکیشن میں مدت 3 سال لکھی گئی، اگرزبردست جنرل مل گیا تو شاید مدت 30 سال لکھ دی جائے۔ جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ کل ہم کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو آپکہہ رہے تھے کہ نہیں ہوتے، پھر آج آپ کہہ رہے ہیں کہ جنرل ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ میں ابہام ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں 18 مختلف غلطیاں مجھے نظر آتی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت پہلی بار آئین پر واپس آئی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے توسیع کر دی تو یہ قانونی مثال بن جائے گی۔ اٹارنی جنرل کے مطابق ہم اس معاملے پر کوئی قانون بنانے کی کوشش کر رہے،ہمیں 3 ماہ کا وقت چاہیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو قانون 72 سال میں نہیں بن سکتا وہ اتنیجلدی میں بھی نہیں بن سکتا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ملک پر حکومت کرنے والے ہمیں عزیز ہیں لیکنآئین اور قانون ہمیں سب سے بالاتر ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے سمری سے عدالت کا نام اور 3 سال کی مدت نکالدیں گے جبکہ تنخواہ اور مراعات سے متعلق چیزیں سمری میں واضح کریں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ایک بیان حلفی جمع کروائیں کہ 6 ماہ میں آئین کے آرٹیکل243 میں قانون سازی کریں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرمی چیف ملک کے دفاع پر نظر رکھیں یا انسمریوں کو دیکھیں، آرمی چیف کے لیے ملک کے دفاع کی بجائے سمریوں پر نظررکھنا باعث شرمندگی ہے۔ سماعت کے بعد عدالت نے مختصر فیصلہ جاری کیا۔ تیسرے روز عدالت نے مختصر فیصلہ جاری کیا اور آرمی چیف کی مدت ملازمتمیں 6 ماہ کی مشروط توسیع کی منظوری دے دی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس عرصے کے دوران پارلیمان آرمی چیف کی توسیع/دوبارہتعیناتی کے لیے قانون سازی کرے گی۔ عدالت کی جانب سے فیصلے میں کہا گیا کہ فیصلے کے مطابق صدر مملکت، افواج پاکستانکے سپریم کمانڈر ہیں، آرمی چیف کی مدت تعیناتی کا قانون میں ذکر نہیں،آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ محدود یا معطل کرنے کا بھی کہیں ذکر نہیں۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ معاملہ پارلیمنٹ اور حکومت پر چھوڑ دیتےہیں، قانون سازی کرکے ہمیشہ کے لیے طے کیا جائے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ اس سے پہلے آرمی چیف کی تعنیاتیاں روایتی طر یقہ سےہوتی رہیں، تاہم موجودہ تعیناتی کو پارلیمنٹ کی قانون سازی سے مشروطکرتے ہیں۔ فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت نے 28 نومبر کی سمری پیش کی، یہ سمریوزیراعظم کی سفارش پر صدر نے پیش کی، سمری میں قمر جاوید باجوہ کودوبارہ آرمی چیف تعینات کیا گیا۔ ساتھ ہی فیصلے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل کسی بھی قانون کا حوالہ نہ دےسکے، ان کا موقف تھا کہ اس حوالے سے ماضی کی روایات پر عمل ہو تا رہاہے۔ مرتب کردہ: محمد بلال خان