امریکی محکمہ تجارت کی جانب سے رواں سال مئی میں ہواوے کو بلیک لسٹ کیا گیا تھا اور امریکی کمپنیوں کو حکومتی اجازت کے بغیر اس کے ساتھ کاروبار کرنے سے روک دیا تھا۔
اس پابندی کے نتیجے میں ہواوے گوگل کے ساتھ کام کرنے سے قاصر ہوگئی جو اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کو آپریٹ کررہا ہے۔
امریکی کامرس سیکرٹری ولبر روس نے حال ہی میں کہا تھا کہ امریکی کمپنیوں کو ہواوے کے ساتھ کام کرنے کے لیے لائسنسز جلد جاری کیے جائیں گے مگر اب تک اس حوالے سے کوئی سرکاری اعلان نہیں ہوا۔
ہواوے نے رواں سال اگست میں ہارمونی آپریٹنگ سسٹم کو متعارف کرایا تھا جو اسمارٹ فونز کی جگہ اسمارٹ ٹی وی اور دیگر ڈیوائسز میں استعمال کیا جارہا ہے۔
اس حوالے سے ونسینٹ پانگ نے نئے انٹرویو میں بتایا 'ہارمونی اینڈرائیڈ کا متبادل نہیں، یہ اگلی نسل کا اینڈرائیڈ ہے'۔
اب تک ہواوے نے اپنے آپریٹنگ سسٹم پر کام کرنے والے ٹیلی ویژن ہی متعارف کرائے ہیں مگر اب تک یہ واضھ نہیں کیا کہ یہ کس طرح اسمارٹ فونز میں کام کرسکے گا۔
ہواوے کی جانب سے گزشتہ چند ماہ کے دوران کہا گیا ہے کہ وہ گوگل کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہے اور اپنے فونز میں اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم ہی چاہتی ہے اور اس کا مسقبل قریب میں ہارمونی او ایس پر مبنی اسمارٹ فون متعارف کرانے کا ارادہ نہیں۔
تاہم کمپنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر امریکی پابندیاں برقرار رہتی ہیں تو 2020 کی پہلی یا دوسری سہ ماہی کے دوران اسمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ پر کام کرنے والے آپریٹنگ سسٹم کو پیش کیا جاسکتا ہے۔
امریکی پابندیوں کے باوجود ہواوے کے فونز کی فروخت میں مالی سال کی تیسری سہ ماہی میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 24.4 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، مگر کمپنی کو چین سے باہر بالخصوص یورپ میں مشکلات کا سامنا ہورہا ہے۔