پاکستان

بیل آؤٹ پیکج کی دوسری قسط کیلئے آئی ایم ایف وفد سے حکام کی ملاقات

پاکستانی حکام فنڈ پروگرام کے جائزے کے کامیابی سے مکمل ہونے پر پرامید ہیں، جس کے بعد دوسری قسط کی فراہمی ممکن ہے، رپورٹ
|

پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مابین 6 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے تحت آئندہ ماہ کے اوائل میں تقریبا 45 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی دوسری قسط کی فراہمی کے لیے پالیسی کی سطح پر بات چیت کا آغاز ہوگیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق رواں سال مئی میں آئی ایم ایف نے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت پاکستان کے لیے 6 ارب ڈالر کی منظوری دی تھی۔

اس منظوری کے بعد پاکستان کو بیل آؤٹ پیکج میں سے 99 کروڑ 14 لاکھ ڈالر کی پہلی قسط ملی تھی۔

تمام معاملے پر ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ سیکریٹری خزانہ نوید کامران بلوچ اور گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) ڈاکٹر رضا باقر نے پالیسی سے متعلق آئی ایم ایف ٹیم کے سربراہ ارنسٹو رماریزرگو سے تبادلہ خیال کیا۔

مزیدپڑھیں: آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے 6 ارب ڈالر قرض کی منظوری دے دی

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ برائے ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ بدھ (6 نومبر) کو مذاکرات کے اختتامی دور میں شامل ہوسکتے ہیں۔

ادھر ذرائع کا کہنا تھا کہ مذاکرات کا مقام وزارت خزانہ سے باہر ایک مقامی ہوٹل میں منتقل کردیا گیا، جہاں آئی ایم ایف وفد کے احتیاطی مشورے کے سبب صرف ممبر رہ رہے تھے۔

ابتدائی ملاقات سے متعلق دونوں وفود کے سربراہوں نے میڈیا ٹاک کرنے سے گریز کیا لیکن حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ بات چیت کے اختتام پر پریس کانفرنس متوقع ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی حکام فنڈ پروگرام کی پہلی سہ ماہی کے جائزے کے کامیابی سے مکمل ہونے پر پرامید ہیں، جس کی وجہ سے دسمبر میں دوسری قسط کی فراہمی ممکن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو آئی ایم ایف پیکج کی پہلی قسط موصول

ان کا کہنا تھا کہ وزارت خزانہ اور مرکزی بینک کی جانب سے کرنٹ اکاؤنٹ سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات کے خوش آئند نتائج ملے اور پہلی سہ ماہی میں مالی اکاؤنٹ کے اہداف کو بھی پورا کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں اضافی گرانٹ پر کڑی جانچ پڑتال کے ذریعے کم از کم 50 ارب روپے کی بچت کی گئی جبکہ موجودہ اخراجات پر قابو پانے کی وجہ سے تقریباً 9 ارب روپے کی بچت ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ محصولات کی وصولی میں کمی کی رفتار پر کچھ خدشات ظاہر کیے گئے اور حکام نے دسمبر کے آخر میں اہداف کے حصول کے لیے اضافی اور اصلاحی اقدامات اٹھانے کا اشارہ دیا، تاہم محصولات کے سلسلے میں ایڈجسٹمنٹ پر بھی بات چیت ہوئی۔

خیال رہے کہ آئی ایم ایف نے اس سال جولائی میں فنڈ پروگرام پر دستخط کرنے سے قبل پاکستان کی طرف سے کی جانے والی تمام پیشگی کارروائیوں کی تکمیل پر 99 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی رقم فراہم کی تھی۔

مزیدپڑھیں: آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف کو اپنے قرض پروگرام سے علیحدہ رکھے، پاکستان

جس کے بعد تمام اقتصادی وزارتوں اور ان کے اداروں سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار کے تبادلے کے لیے دونوں فریق 28 اکتوبر سے تکنیکی سطح پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے حکومت کو آئی ایم ایف کی ٹیم نے مشورہ دیا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ مالی اور معاشی رابطوں کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر تعاون کو مستحکم بنائیں اور وفاقی اور صوبائی حکام سے معاشی و اقتصادی ترقی کے لیے فنڈز کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔

اسلام آباد میں حکام کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف وفد پہلی سہ ماہی میں فنڈ پروگرام میں مجموعی پیشرفت سے مطمئن ہے کیونکہ آمدنی میں کمی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے ذریعے فراہم کردہ لائسنس فیسوں کی مدد سے غیر ٹیکس محصولات کے تخمینے سے کہیں زیادہ ہے۔