پاکستان

دفتر خارجہ کی کرتارپور سے متعلق بھارتی میڈیا کی رپورٹس کی مذمت

بے بنیاد رپورٹس کا مقصد پاکستان کے قدم کو غلط انداز میں پیش کرنا اور سکھوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا ہے، دفتر خارجہ
|

دفتر خارجہ نے بھارتی میڈیا کے ایک حلقے کی جانب سے کرتارپور کے حوالے سے بے بنیاد رپورٹس کو یکسر مسترد کردیا ہے جس میں ‘انٹیلی جنس ذرائع’ کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ان کے ساتھ بدترین سلوک ہوگا جس کے وہ حقدار ہیں۔

دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ‘کرتارپور کے حوالے سے پاکستان کا عزم نانک نام لیواؤں، خاص طور پر سکھ برادری کو سہولت دینا ہے تاکہ اپنے مقدس ترین مقام میں عبادت کر سکیں اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے’۔

بیان کے مطابق ‘بھارت میں میڈیا میں چلنے والا مواد بے بنیاد اور پروپیگنڈا مہم ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے’۔

دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ‘گردوارا کرتارپور صاحب کے حوالے سے جاری بے بنیاد الزامات کو جان بوجھ کر عبادت کے بجائے دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے’۔

مزید پڑھیں:نوجوت سدھو کرتارپور راہداری کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے

رپورٹس میں گردوارا کرتارپور صاحب کے قریب نارووال میں مبینہ طور پر دہشت گردی کے تربیتی کیمپ کی موجودگی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

میڈیا کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کا مقصد پاکستان کے خیر سگالی کے قدم کو غلط انداز میں پیش کرنا، راہداری کے اقدام کو کمزور کرنا اور دنیا بھر میں سکھوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا ہے۔

دفترخارجہ نے کہا ہے کہ ‘ہمیں اس بات پر کوئی شک نہیں ہے کہ اس طرح کی مذموم کوشش کو اسی طرح مسترد کردیا جائے گا’۔

واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان 9 نومبر 2019 کو کرتار پور راہداری کا افتتاح کریں گے جس میں شرکت کے لیے بھارت کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اور سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کو باقاعدہ دعوت دی گئی ہے۔

سابق بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ایک عام شہری کی حیثیت سے تقریب میں شرکت پر رضامندی ظاہر کردی تھی۔

بھارت نے کرتارپور راہداری کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے 575 افراد کی فہرست پاکستانی حکام کو بھیجوا دی ہے تاہم اس میں نوجوت سنگھ سدھو کا نام شامل نہیں تھا اس لیے انہیں بھی باقاعدہ دعوت دی گئی۔

کرتار پور کہاں ہے اور سکھوں کے لیے اتنا اہم کیوں؟

کرتار پور پاکستانی پنجاب کے ضلع نارووال میں شکر گڑھ کے علاقے میں دریائے راوی کے مغربی جانب واقع ہے۔ جہاں سکھوں کے پہلے گرونانک دیو جی نے اپنی زندگی کے 18 برس گزارے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان، بھارت کے درمیان کرتارپور راہداری فعال کرنے کے معاہدے پر دستخط

کرتارپور میں واقع دربار صاحب گردوارہ کا بھارتی سرحد سے فاصلہ تین سے چار کلومیٹر کا ہی ہے۔

سکھ زائرین بھارت سے دوربین کے ذریعے ڈیرہ بابانک کی زیارت کرتے ہیں بابا گرونانک کی سالگرہ منانے کے لیے ہزاروں سکھ زائرین ہر سال بھارت سے پاکستان آتے ہیں۔

پاکستان میں واقع سکھوں کے دیگر مقدس مقامات ڈیرہ صاحب لاہور، پنجہ صاحب حسن ابدال اور جنم استھان ننکانہ صاحب کے برعکس کرتار پور ڈیرہ بابا نانک سرحد کے قریب ایک گاؤں میں ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان کرتارپور سرحد کھولنے کا معاملہ 1988 میں طے پاگیا تھا لیکن بعد ازاں دونوں ممالک کے کشیدہ حالات کے باعث اس حوالے سے پیش رفت نہ ہوسکی۔

سرحد بند ہونے کی وجہ سے ہر سال بابا گرونانک کے جنم دن کے موقع پر سکھ بھارتی سرحد کے قریب عبادت کرتے ہیں اور بہت سے زائرین دوربین کے ذریعے گردوارے کی زیارت بھی کرتے ہیں۔

'کسی بھی مذموم مقصد کیلئے قربانیوں کے ثمرات رائیگاں نہیں جانے دیں گے'

چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز کی ضمانت منظور، رہائی کا حکم

'جج کےخلاف ریفرنس بھجوانے میں صدر کا وزیراعظم کے مشورے پر عمل کرنا غیرآئینی ہے'