پاکستان

جے یو آئی (ف) کا آزادی مارچ لاہور سے راولپنڈی کی طرف رواں دواں

موجودہ حکمرانوں کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں، ہمارے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے حکمران استعفی دیں، مولانا فضل الرحمٰن
| | |

جمعیت علمائے اسلام (ف) کا حکومت مخالف ’آزادی مارچ‘ رہنماؤں اور کارکنان کی بڑی تعداد کے ہمراہ اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے اور لاہور کے بعد اب اگلا پڑاؤ راولپنڈی میں ہوگا جہاں سے اپنے منزل کی طرف روانہ ہوگا۔

مارچ کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنماؤں کا اجلاس بھی ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ 2 بڑے مقامات پر تمام اپوزیشن جماعتیں مل کر مارچ کے لیے استقبالیہ کیمپ لگائیں گی۔

اس سلسلے میں ایک کیمپ راوت ٹی چوک جبکہ دوسرا استقبالیہ کیمپ 26 نمبر چونگی پر لگایا جائے گا اور جمعیت علمائے اسلام (ف)، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنما و کارکنان مل کر لگائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ لاہور کیلئے روانہ

آزادی مارچ کے راستوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ضلعی ترجمان حافظ ضیااللہ نے بتایا کہ جے یو آئی (ف) کے مرکزی رہنماؤں نے احتجاجی مارچ راولپنڈی کے مری روڈ سے ہوتا ہوا براستہ فیض آباد اسلام آباد میں داخل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ آزادی مارچ کے شرکا ٹی چوک اسلام آباد یا لیاقت باغ راولپنڈی میں قیام کریں گے اور آزادی مارچ کے پڑاؤ اور اسلام آباد میں داخلے کے لیے جڑواں شہروں کی انتظامیہ سے رابطے میں ہیں۔

آزادی مارچ کے شرکا کی لاہور سے روانگی کے بعد مولانافضل الرحمٰن نے مختلف مقامات پر خطاب کیا اور وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ دہرایا۔

آزادی مارچ کا گجرانوالا میں شان دار استقبال کیا گیا جہاں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ نااہل حکومت ہمیں معاشی بحران سے نہیں نکال سکتی اس لیے ہم پاکستان کے بقا اور سلامتی کے لیے نکلے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 25جولائی 2018 کے الیکشن کوتسلیم نہیں کرتے، انتخابات کو چرایا گیا اس لیے آج پوری قوم ایک صف میں کھڑی ہے۔

گوجرانوالا میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی جہاں انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ نواز شریف کی صحت کے لیے دعا گو ہوں۔

'قوم ایک صفحے پر ہے'

کامونکی میں خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پوری قوم ایک صفحے پر ہے، موجودہ حکومت کا خاتمہ اور نئے انتخابات کا مطالبہ اب قومی مطالبہ بن چکا ہے اس لیے حکمران اقتدار چھوڑ کر عوام کے حوالے کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے، ملکی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے، معیشت تباہ ہوتی ہے تو ملکوں کا جغرافیہ بدل جاتا ہے لہٰذا ملک کو بچانا ہے اور بقا کی جنگ لڑنا ہے تو آئیں قدم سے قدم ملا کر اسلام آباد جائیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے تمام سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آئیں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر حکمرانوں سے کہیں کہ آپ کی جگہ نہیں ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس بات کا ادراک کیا۔

انہوں نے کہا کہ جو قیادت جیلوں میں ہے اللہ ان کو صحت عطا کرے۔

اس سے قبل مریدکے میں اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اسلام آباد پہنچ کر ایک ہی آواز گونجے گی کہ عوام کے ووٹ کی اب عزت ہوگی اور عوام کے ووٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔

سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں ملک کی معیشت مستحکم جبکہ ہمارا معاشی جہاز ڈوب رہا ہے لیکن ہم نے ملکی سلامتی کی جنگ لڑنی ہے۔

اوکاڑہ میں شان دار استقبال

مولانا فضل الرحمٰن کا قافلہ جب اوکاڑہ پہنچا تو کارکنان نے ان کا شاندار استقبال کیا اس موقع پر علامہ راشد سومرو، ڈاکٹر عتیق الرحمٰن، علامہ ناصر سومرو اور دیگر رہنما بھی ان کے ہمراہ تھے۔

مزید پڑھیں: آزادی مارچ: پشاور ہائی کورٹ کا صوبائی حکومت کو شاہراہیں بند نہ کرنے کا حکم

ترجمان جے یو آئی نے مزید تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ آزادی مارچ 30 اکتوبر کی رات تک راولپنڈی پہنچنے کی امید ہے اور راولپنڈی میں پڑاؤ کرنے کے بعد 31 اکتوبر کو اسلام آباد کے لیے روانہ ہوں گے۔

مارچ کے شرکا کو ایندھن نہ فروخت کرنے کیلئے دباؤ

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بظاہر آزادی مارچ کے شرکا کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں البتہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مبینہ طور پر پیٹرولیم ڈیلرز پر دباؤ ڈالا گیا کہ یا تو اپنے کاروبار بند رکھیں اور جے یو آئی (ف) کے آزادی مارچ میں شامل گاڑیوں، ٹرکوں کو ایندھن فراہم نہ کریں۔

دوسری جانب پیٹرولیم ٹینکرز ایسوسی ایشن نے بھی وعدوں کے باوجود ان کے مسائل حل نہ ہونے پر بدھ کو (آج) پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا تھا جس کے باعث پیٹرول پمپ پر ایندھن کا ذخیرہ تیزی سے کم ہونے کا بھی امکان ہے۔

اس ضمن میں ایک پمپ مالک نے بتایا کہ ہمیں ایندھن کا ذخیرہ سنبھال کر رکھنے کا کہا گیا ہے لیکن اب تک ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم پمپ نہیں بند کریں گے لہٰذا اگر کوئی ایندھن بھروانے آئے تو ہم منع نہیں کرسکتے کیوں کہ منع کرنے کی صورت میں اگر مارچ کے شرکا نے ہمارے پمپ پر توڑ پھوڑ کی تو کون ہماری حفاظت کرے گا۔

میٹرو بس ڈپو سیل کرنے کا امکان

دوسری جانب پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی (پی ایم ٹی اے)، جے یو آئی (ف) کے آزادی مارچ کی گزرگاہوں میں موجود میٹروبس ڈپو اسلام آباد کی ضلعی اتنظامیہ کے حوالے کردیا جائے گا جو اسے کنٹینر لگا کر سیل کردے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پشاور موڑ کا میٹر بس ڈپو 16.5 ایکڑ وسیع ہے اور اس میں 100 میٹرو بسز کی گنجائش ہے۔

اس ضمن میں پی ایم ٹی اے کی آپریشنل منیجر شمیلا محسن نے بتایا کہ تمام بسز ڈپو سے چلائی جاتی ہیں اور رات میں یہیں کھڑی کردی جاتی ہیں لہٰذا اگر ڈپو سیل کیا گیا تو پی ایم ٹی اے کے راولپنڈی اور اسلام آباد کے مابین بسز چلانا مشکل ہوجائے گا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ماضی میں ایک مذہبی تنظیم کی جانب سے فیض آباد کے مقام پر دھرنے کے وقت اس کے کارکنان نے میٹرو بس اسٹیشن کو نقصان پہنچایا جس کی مرمت پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے تھے۔

آپریشنل منیجر کا مزید کہنا تھا کہ انتظامیہ نے تحریری طور پر کوئی حکم نامہ نہیں دیا البتہ زبانی انہوں نے میٹرو بس ڈپو ان کے حوالے کرنے کی ہدایت کی ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگر عوامی اجتماع کے شرکا کی تعداد بہت زیادہ ہوئی تو بسز روک دی جائیں گی لیکن اگر تعداد کم ہوئی تو ہم کم از کم راولپنڈی کے اندر بسز چلاتے رہیں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن کا خطاب

خیال رہے کہ آزادی مارچ 29 اکتوبر کی رات لاہور پہنچا تھا جہاں ٹھوکر نیاز بیگ پر مارچ کے شرکا کا استقبال کیا گیا اور آتش بازی بھی کی گئی تھی اس موقع پر لاہور کے یتیم خانہ چوک پر جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے شرکا سے مختصر خطاب بھی کیا تھا۔

خطاب میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کھلے دل سے استقبال کرنے پر لاہور کے عوام کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ کہا کہ ’میں پاکستان کی ساری سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کا شکر گزار ہوں کہ وہ آزادی مارچ میں آئیں‘۔

مولانا فضل الرحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حکمرانوں کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں، ہمارے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے حکمران استعفی دیں، حکمرانوں عوام کو ان کے ووٹ کی امانت واپس کردو۔

خطاب میں مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’اب بھی مہلت ہے کہ عمران خان استعفٰی دیں اور بھیانک انجام سے بچیں، کراچی سے اسلام آباد تک قوم یکسو ہے کہ عمران خان مستعفی ہوں‘۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن نے کراچی سے آزادی مارچ کا آغاز کردیا

انہوں نے کہا کہ اب قوم عمران خان کو مزید مہلت نہیں دے گی، عمران خان نے ملک کی معیشت تباہ کر دی اور جب معیشت تباہ ہو جائے تو ملک اپنا وجود کھو بیٹھتا ہے۔

وزیراعظم کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ کشمیر فروش ہے اس کے ہوتے ہوئے پاکستان کے جفرافیہ کو بھی خطرہ ہے اور عمران خان کے ہاتھوں اسلامی اقدار کو بھی خطرہ ہے‘۔

اپنے خطاب میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’وہ استقامت اور جوان مردی سے مقابلہ کر رہے ہیں‘، میں نواز شریف کی صحت یابی کے لیے دعاگو ہوں۔

اس کے ساتھ انہوں نے حکومت مخالف مارچ کی حمایت کرنے پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔

جے یو آئی (ف) کا ’آزادی مارچ‘

واضح رہے کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے 25 اگست کو اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا ارادہ رکھتی ہے، جس کا مقصد اکتوبر میں 'جعلی حکومت' کو گھر بھیجنا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ 'حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ مستعفی ہوکر گھر چلی جائے اور اگر یہ خود نہیں جاتے تو ہم ان کو گھر بھیجیں گے'۔

ابتدائی طور پر اس احتجاج، جسے 'آزادی مارچ' کا نام دیا گیا تھا، اس کی تاریخ 27 اکتوبر رکھی گئی تھی لیکن بعد ازاں مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا تھا کہ لانگ مارچ کے شرکا 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔

مذکورہ احتجاج کے سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلئے مولانا فضل الرحمٰن متحرک

تاہم 11 ستمبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے مولانا فضل الرحمٰن کے اسلام آباد میں دھرنے میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اخلاقی اور سیاسی طور پر ان کے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔

دوسری جانب دھرنے میں شرکت کے حوالے سے مرکزی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور صدر شہباز شریف کے درمیان بھی اختلافات کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

بعدازاں 18 اکتوبر کو مسلم لیگ (ن) نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ کے حکومت کے خلاف 'آزادی مارچ' کی حمایت کرتے ہوئے اس میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا تھا۔

ادھر حکومت نے اسی روز اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی۔

تاہم مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لیے کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے کہا تھا کہ استعفے سے پہلے کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے لیکن ان کی جماعت کے رہنما نے کہا تھا کہ جماعت نے حکومتی ٹیم سے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے۔

جے یو آئی (ف) کی جانب سے حکومتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کی اطلاعات سامنے آنے پر پیپلز پارٹی کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔

اس ضمن میں ایک پی پی پی عہدیدار نے بتایا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کی مذاکراتی کمیٹی سے بات چیت پر پی پی پی کو اعتماد میں نہیں لیا اور ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ جے یو آئی (ف) کا فیصلہ اپوزیشن کے مشترکہ اعلامیے کی خلاف ورزی ہے۔

پی پی پی کی جانب سے تحفظات اور ناراضگی کا اظہار کیے جانے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن، پیپلز پارٹی کو منانے کے لیے متحرک ہوگئے تھے اور حکومتی کمیٹی سے مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔

بعدازاں وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں اپوزیشن جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 'آزادی مارچ' منعقد کرنے کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

حکومت کی جانب سے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں بنائی گئی مذاکراتی ٹیم نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی اور اپوزیشن کے آزادی مارچ پر تبادلہ خیال کیا تھا جس کے بعد مارچ کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔