پاکستان

’جسٹس فائز عیسیٰ کے اثاثوں کی تلاش کیلئے متعلقہ اتھارٹی سے اجازت نہیں لی‘

تعجب ہے کہ درخواست گزار کو لندن میں جسٹس فائز عیسیٰ کی پراپرٹی کا ایڈریس کیسے مل گیا، جج سپریم کورٹ منصور علی شاہ
| |

سپریم کورٹ کے جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اثاثوں کی تلاش کا عمل متعلقہ حکام یا اتھارٹی کی اجازت کے بغیر کیا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کو صدارتی ریفرنس کا سامنا ہے۔

اس میں سپریم کورٹ کے 10رکنی فل کورٹ بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف متعدد درخواستوں پر سماعت کی۔

مزیدپڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس ساجد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس میں ایسا کچھ نہیں کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچے ان کی ذمہ داری ہیں۔

جسٹس منصور شاہ نے سوال اٹھایا کہ کیا وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آر) نے اس پہلو پر تحقیقات کی، یہ ناقابل فہم بات ہے کہ درخواست گزار کو لندن میں جسٹس فائز عیسیٰ کی پراپرٹی کا ایڈریس کیسے مل گیا۔

بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ جاننا چاہتی ہے کہ کیوں اور کیسے اعلیٰ عدلیہ میں ٹرائل ہورہا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ عدالتیں اپنے فرائض انجام دیں اور مقدمات کو التوا کرنے کی بجائے فیصلہ سنانا چاہیے، چھوٹے نوعیت کے مسائل پر مسلسل التوا شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔

مزیدپڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کیلئے 10 رکنی فل کورٹ تشکیل

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سینئر قونصل منیر اے ملک نے کہا کہ ایف بی آر نے 2015 میں جسٹس قاضی فائز کو نہیں بلکہ اہلیہ کو ٹیکس کی عدم ادائیگی پر نوٹس جاری کیا۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں تین جائیدادوں سے متعلق کوئی الزام نہیں ہے، جو پہلے ہی ظاہر کرچکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ریفرنس میں میرے موکل کے خلاف بدنیتی یا کرپشن کا کوئی الزام نہیں‘۔

جس پر جسٹس منیب اختر نے قونصل سے کہا کہ کیا جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کے اہلخانہ نے 6 فروری (دھرنا کیس فیصلہ) کے دوران برطانیہ کا دورہ کیا اور ریفرنس فائل ہوا۔

مزیدپڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست سننے والا سپریم کورٹ کا بینچ تحلیل

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ دهرنا کیس فیصلے اور نظرثانی کی درخواستوں کے دوران ان کے موکل کی جاسوسی کی گئی۔

ایڈووکیٹ حامد خان کا کہنا تھا چونکہ 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ بار کے انتخابات ہیں اور آزادی مارچ کے باعث وکلا دیگر شہروں سے نہیں آسکیں گے اس لے کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دی جائے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کی جانب سے التوا کی مخالفت پر حامد خان کی استدعا مسترد کردی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ جسٹس قاضی فائز کے 7 مارچ کے فیصلے کے بعد حکومتی اتحادیوں کے اعتراضات آنا شروع ہوگئے تھے جبکہ دهرنا کیس فیصلے اور نظرثانی کی درخواستوں کے دوران میرے موکل کی جاسوسی کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ وحید ڈوگر نامی شکایت کنندہ نے 10 اپریل کو ایسٹ ریکوری یونٹ میں درخواست دی جو نامکمل تھی، یونٹ سربراہ شہزاد اکبر نے شکایت کنندہ وحید ڈوگر سے ملاقات کی، بعد ازاں وزیر قانون کو تحقیقات کے لیے کہا گیا جبکہ چیئرمین ایسٹ ریکوری یونٹ نے خط کے ذریعے وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) سے درخواست گزار کی فیملی کی تفصیلات مانگیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ شہزاد اکبر نے جج کے خلاف ابتدائی تحقیقات وزیر اعظم آفس میں شروع کیں اور ان سے منظوری نہیں لی۔

وکیل منیر اے ملک نے جواب میں کہا کہ اس معاملے میں ایسٹ ریکوری یونٹ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے جج کے خلاف انکوائری پہلے کی اور وزیر اعظم کو بعد میں بتایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارت قانون کی طرف سے ریفرنس تیار کر کے صدر پاکستان کو بهجوایا گیا، وزیر اعظم کی ہدایت پر صدر پاکستان نے ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھیجا حالانکہ آئین کی رو سے وزیر اعظم، صدر مملکت کو براہ راست اس طرح کی ہدایت نہیں دے سکتے۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کیلئے 10 رکنی فل کورٹ تشکیل

انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کے علاوہ کوئی بھی جج کے خلاف انکوائری نہیں کر سکتا جبکہ شکایت کی صورت میں صدر مملکت نے اپنی رائے کے ساتھ معاملہ کونسل کو بھیجنا ہوتا ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس میں یہ الزام نہیں لگایا گیا کہ جائیداد براہ راست یا بے نامی طور پر درخواست گزار کی ہے، ریفرنس میں کرپشن اور بددیانتی کا الزام نہیں لگایا گیا، ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اہلیہ کی جائیداد ظاہر نہیں کی، اس حوالے سے ایف بی آر کی جانب سے درخواست گزار کو کوئی نوٹس بھی نہیں بھیجا گیا۔

وکیل منیر اے ملک نے مزید کہا کہ صدارتی ریفرنس پر صدر مملکت نے وزیر اعظم کے مشورے پر انحصار کیا، ریفرنس دائر کرنے میں صدر، وزیر اعظم، اٹارنی جنرل، وزیر قانون اور سیکریٹری قانون شامل ہیں، وزارت قانون اور ایسٹ ریکوری یونٹ کی مشترکہ پریس ریلیز جاری کی گئی اور درخواست گزار کے خلاف سوچ سمجھ کر منصوبہ بنایا گیا۔

عدالت نے جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر مزید سماعت کل (بدھ) تک ملتوی کردی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست

خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف ریفرنس کو چیلنج کیا تھا اور عدالت عظمیٰ سے معاملے پر فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تھی۔

انہوں نے اپنی درخواست میں فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالتی مثالیں دیتے ہوئے کہا تھا کہ فل کورٹ بنانے کی عدالتی نظیر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بنام ریاست کیس میں موجود ہے۔

اپنے اعتراضات کی حمایت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ان کے خلاف ریفرنس 427 (دوسری درخواست) پر سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے فیصلے میں 'تعصب' ظاہر کیا اور وہ منصفانہ سماعت کی اپنی ساخت کھودی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست سننے والا سپریم کورٹ کا بینچ تحلیل

اپنی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وہ کوئی بھی ریفرنس کا سامنا کرنے کو تیار ہیں اگر وہ قانون کے مطابق ہو لیکن انہوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ان کی اہلیہ اور بچوں کو مبینہ طور پر اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا تھا کہ درخواست گزار کی اہلیہ اور بچوں پر غیر قانونی طریقے سے خفیہ آلات اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال کرکے سروے کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے صدارتی ریفرنس جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ایک ریفرنس خارج

صدر مملکت کو اپنے دوسرے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ انہوں نے لندن میں موجود جائیدادوں سے متعلق کچھ نہیں چھپایا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 8 صفحات پر مشتمل خط میں اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر مملکت اپنے اختیارات کے تحت اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آئین کی پیروی کی جائے۔

لندن میں 3 جائیدادیں رکھنے کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا کہ وہ خود پر اور اپنے خاندان کے خلاف تحقیقات کے طریقے پر صبر کرلیں لیکن کیا یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کا باعث نہیں ہورہا۔

خط میں انہوں نے کہا تھا کہ جج ایسا کچھ ہونے کی اجازت نہیں دیتے اور اپنے آئینی حلف کے مطابق وہ آئین کی حفاظت اور اس کا دفاع کرتے ہیں۔

سانحہ ساہیوال: پنجاب حکومت نے ملزمان کی بریت چیلنج کردی

ماتحت سے جنسی تعلقات کا الزام، خاتون رکن کانگریس مستعفی

کیا نواز شریف پنجاب کے بھٹو ثابت ہوں گے؟