امریکی قانون سازوں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر پھر تشویش ظاہر کردی
امریکا نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر ایک بار پھر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت سے وادی میں حالات معمول پر لانے کا مطالبہ کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں بیشتر قانون سازوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات پر سوالات اٹھائے۔
جنوبی ایشیا کے لیے اسسٹنٹ سیکریٹری خارجہ ایلس ویلز نے کہا کہ بھارت کے وادی کشمیر میں اقدامات کے اثرات کے حوالے سے امریکا بدستور خدشات کا شکار ہے۔
انہوں نے ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ 'امریکا نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کرے اور انٹرنیٹ و موبائل فون سمیت تمام سروسز بحال کرے۔'
ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ امریکا کو کشمیر کے مرکزی سیاسی رہنماؤں سمیت شہریوں کی حراست اور مقامی و غیر ملکی میڈیا کی کوریج کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے پر بھی تشویش ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: بھارتی تفتیشی ادارے نے حریت رہنما کو گرفتار کرلیا
کمیٹی کی نمائندہ و معروف خاتون ساز الہان عمر نے کہا کہ کشمیر میں بھارت کے اقدامات، نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اسلام مخالف اقدامات کا ہی حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں حراستی کیمپس قائم کیے جانے کی بھی رپورٹس ہیں، آسام میں تقریباً 20 لاکھ افراد رجسٹریشن کے متنازع عمل میں اپنی بھارتی شہریت ثابت نہیں کر پائے ہیں جن سے متعلق مودی کی حکومت کہہ رہی ہے کہ 'غیر قانونی' مہاجر ملک میں نہیں رہ سکتے۔
الہان عمر نے میانمار میں مسلمانوں کے خلاف خونی مہم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'اسی طرح روہنگیا کی نسل کشی کا آغاز ہوا۔'
انہوں نے کمیٹی اراکین کے سامنے سوال اٹھایا کہ 'ہم کب تک بھارت سے متعلق خاموش رہیں گے؟ کیا ہمیں آسام کے مسلمانوں کو ان حراستی کیمپوں میں ڈالے جانے کا انتظار ہے؟'
اس موقع پر ایلس ویلز نے کہا کہ 'ہم نے اپنی تشویش ظاہر کی ہے لیکن آسام میں شہریت کی رجسٹریشن کا عمل عدالت کے حکم پر ہوا جس کے خلاف اپیل کی گئی ہے۔'
مزید پڑھیں: بھارت کے تجارتی بائیکاٹ کے باوجود ملائیشین وزیراعظم کشمیر کے بیان پر قائم
خیال رہے کہ 5 اگست کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے یکطرفہ اقدام کے ساتھ ہی پوری سیاسی قیادت کو غیر قانونی طور پر گرفتار یا نظر بند کر لیا گیا تھا جس میں سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، ان کے بیٹے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے علاوہ حریت رہنما بھی شامل ہیں۔
سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کے علاوہ حریت کانفرنس کے ہزاروں کارکنوں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے جن میں سیکڑوں بچے بھی شامل ہیں۔