سنگاپور میں ہونے والی کانفرنس کے دوران انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بچوں کو پڑھانے کے حوالے سے کچھ منصوبے بھی تیار کرچکے ہیں۔
علی بابا کی تشکیل سے قبل انگلش پڑھانے والے جیک ما کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ 5 برس کے دوران دیہی علاقوں کے اساتذہ کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اور وہاں انہیں مختلف آئیڈیا کو منصوبے کی شکل دینے میں مدد ملی۔
پرائمری، مڈل اور یونیورسٹی کے داخلے کے امتحانات میں ناکام رہنے والے جیک ما نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ آج انہیں علی بابا میں ملازمت بھی نہیں مل سکتی کیونکہ اب اسٹینفورڈ اور ہارورڈ سے فارغ التحصیل طالبعلموں سے مسابقت کا سامنا ہوتا۔
انہوں نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ آج کی نوجوان نسل ڈیجیٹل عہد میں آگے بڑھنے سے قاصر ہوجائے گی اگر اگلے 2 سے 3 دہائیوں کے دوران تعلیمی نظام کو بدلا نہیں گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں علی بابا کے ذہین ملازمین پر فخر ہے مگر وہ ذاتی طور پر ایسے دانشمند شخص کو ترجیح دیتے ہیں جو اپنے دل کو استعمال کرے۔
ان کا کہنا تھا 'بیشتر ذہین افراد بس کامیابی چاہتے ہیں، مگر ہم ایسے اسمارٹ لوگ چاہتے ہیں جو یہ سیکھیں کہ انسان کیسے جیتے ہیں، دوسروں کا خیال کیسے رکھا جاتا ہے، جب اسمارٹ لوگ دوسروں کا خیال رکھنا، مستقبل کا خیال رکھنا، انسان بننا سیکھ لیں گے تو ایک کمپنی زیادہ گرم جوش، ہموار اور نرم طاقت کے خیال پر یقین کرے گی، دوسری صورت میں آپ کو گینگسٹر کے ایک گروپ کا سامنا ہوگا'۔
جیک ما نے کہا 'یہی وجہ ہے کہ میں یہ مانتا ہوں کہ ہمیں زیادہ دانشمند افراد اور رہنماﺅں کی ضرورت ہے، ایک اسمارٹ مشین ہمیشہ آپ سے زیادہ اسمارٹ ہوسکتی ہے، مگر ایک مشین کبھی دانشمند نہیں ہوسکتی، مشین کا دل نہیں ہوتا، ان کے پاس بس چپس ہوتی ہیں، تو میرا سوچنا ہے کہ انسانوں کو ہمیشہ سیکھنا چاہیے کہ دانش کیسے حاصل کی جائے'۔
ان کے بقول تعلیمی نظام میں تبدیلیاں لاکر بچوں کو سیکھایا جانا چاہیے کہ وہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے عہد میں انسان کیسے بنیں ، موسیقی، رقص، مصوری اور کھیل جیسی صلاحیتیں بہت اہم ہیں اور ان سے لوگوں کے دلوں کو مصروف رکھا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا 'غلطیوں سے سیکھیں اور انہیں نظرانداز مت کریں، جب آپ غلطی کریں تو یہ بھی جانیں کہ اس کا سامنا کیسے کیا جائے، اسے حل کیسے کیا جائے اور چیلنج کیسے کیا جائے۔ اسے ہی عقل و دانش کہا جاتا ہے، یہی ہمیں اپنے بچوں کو بھی سیکھانا چاہیے'۔
خیال رہے کہ جیک ما اس وقت 41.4 ارب ڈالرز (50کھرب پاکستانی روپے سے زائد) کے مالک ہیں اور دنیا کے 20 ویں امیر ترین شخص ہیں، مگر ایک وقت تھا جب ان کی ماہانہ آمدنی نہ ہونے کے برابر تھی۔
جیک ما نے 1988 میں گریجویشن کے بعد اپنے آبائی علاقے ہانگژو میں ایک یونیورسٹی میں انگلش ٹیچر کے طور پر کام کیا تھا جہاں ان کی ماہانہ تنخواہ 12 ڈالر تھی۔