کلینل سائیکولوجسٹ آشا بیدار — فوٹو: بشکریہ فیس بک
آشا بیدار نے کہا کہ مردوں کو بھی ہراساں کیا جاسکتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں یہ خاص طور پر عورتوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ہراسانی کے محرکات کو دیکھیں تو یہ کوئی ذہنی بیماری نہیں جو مرد اس طرح کرتے ہیں انہیں کوئی نفسیاتی بیماری نہیں ہوتی، بنیادی طور پر یہ طاقت کا استعمال ہوتا ہے انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاتون یا جوان لڑکی جو اپنے گھر سے نکل کر آئی ہے اسے جاب کی ضرورت ہے یا وہ اس ملازمت میں آگے بڑھنا چاہ رہی ہے پروموشن چاہ رہی ہے یا کسی طرح سے بھی کامیاب ہونا چاہ رہی ہے تو یہ ایک چیز ہے جسے استعمال کرکے اس خاتون کو دبایا جاسکتا ہے یا اپنی ضروریات ناجائز طریقہ اختیار کرکے پوری کروائی جاسکتی ہیں یا مزہ لینے کے لیے کہ ایک عورت اس ماحول میں موجود ہے۔
آشا بیدار نے کہا کہ جس انسان کو جنسی ہراساں کیا جاتا ہے اس کی شخصیت پر شدید اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، ایک تو کام متاثر ہوتا ہے کیونکہ جہاں کمانے کے لیے، شوق کے لیے اور ترقی کے لیے جارہے ہیں، وہاں اس طرح کا ماحول بن گیا ہے کہ وہاں پر عزت نفس کو بحال رکھتے ہوئے کام نہیں کرپا رہے ہوں تو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
ہراسانی کی مزید تشریح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دھکے دینا، جان بوجھ کر چھونے کی کوشش کرنا، مذاق یا دباؤ ڈالنا، علاوہ ازیں ہراساں کرنے والے شخص کی جانب سے بات چیت، رات کو فون کرنے یا علیحدہ ملنے کا مطالبہ کرنا جبکہ متاثرہ خاتون اپنی مرضی سے ایسا نہیں کرنا چاہ رہیں، رات کو دیر تک دفتر میں غیر ضروری طور پر رکنے کا کہنا جبکہ اس کی ضرورت نہیں اور مرد ساتھیوں کے ساتھ ایسا نہیں کررہے تو ظاہر ہے اس سے نا صرف آفس کا ماحول خراب ہوگا بلکہ متاثرہ فرد کا کام کرنے کا دل بھی نہیں چاہے گا۔
آشا بیدار نے کہا کہ ہر ایک کے پاس وہ چوائس نہیں کہ نوکری چھوڑ دے اور اپنی ملازمت کیوں چھوڑیں جب کام بھی ٹھیک طرح سے کررہے ہیں لیکن جو رویہ رکھا جارہا ہے وہ غلط ہے، کئی دفعہ چوائس بھی نہیں ہوتی کیونکہ رقم کی ضرورت ہوتی ہے، ملازمت کیریئر کے لیے اچھی ہوتی ہے جبکہ بیشر خواتین کو ملازمت چھوڑنی پڑتی ہیں، مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے یا ان کی پروموشن رک جاتی ہے یا اتنا زیادہ تنگ کیا جاتا ہے اور مذکورہ تعلقات سے انکار کردیا تو انہیں دی گئی سہولیات روک دی جاتی ہیں یا ماحول اتنا برا کردیا جاتا ہے کہ وہاں کام کرنا ناممکن ہوجاتا ہے اور بہت سی خواتین ڈپریشن، انزائٹی (پریشانی، بے چینی) کا بھی شکار ہوجاتی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے پاس ایسی خواتین بھی آئیں کہ ان کے لیے آفس میں کام کرنا ناممکن ہوگیا، جس کے مالی نقصانات تو ہیں لیکن بہت زیادہ اسٹریس، ذہنی دباؤ، انزائٹی ہوتی ہے اور دفتر میں کام نہیں کیا جاسکتا، اس کے ساتھ ساتھ ہراسانی کا شکار ہونے والی خواتین خوف میں مبتلا ہوجاتی ہیں، جو خود کو الزام دیتی ہیں اور قصوروار ٹھہراتی ہیں۔
می ٹو مہم سے مثبت تبدیلی
ڈاکٹر آشا بیدار نے کہا کہ ’می ٹو‘ مہم سے کافی تبدیلی آئی ہے، ہراسانی سے متعلق قانون کافی سالوں سے بنا ہوا ہے اس پر شاید اتنا زیادہ عمل نہیں ہورہا یا اسے شاید زیادہ استعمال نہیں کیا جارہا کیونکہ اس میں کچھ خامیاں بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ می ٹو مہم کے بعد سے آگاہی کے حوالے سے بہت زیادہ تبدیلی آئی، اس پر خواتین، لڑکیاں، لڑکے، مرد الغرض بہت لوگوں نے بات کی، اس حوالے سے معلومات میں بھی اضافہ ہوا۔
ماہرِ نفسیات نے کہا کہ متعدد مرتبہ ہراسانی محسوس نہیں ہوتی اور متاثرہ فرد خود بھی کنفیوژن کا شکار ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک کافی پیچیدہ مسئلہ ہے لیکن اب با آسانی اس پر سوشل میڈیا، ٹی وی پر بات ہورہی ہے، اس حوالے سے کچھ ہائی پروفائل کیسز بھی سامنے آئے ہیں میرے خیال میں یہ اس مہم کا ایک بہت مثبت پہلو ہے۔
آشا بیدار نے کہا کہ ہم اس پر جتنی زیادہ بات چیت کریں گے ہراسانی کے واقعات میں کمی آئے گی کیونکہ جو لوگ جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں یا خواتین اور مرد جو جنسی ہراساں ہوتے ہیں اگر انہیں اس حوالے سے آگاہی ہوگی تو اس سے بچ بھی سکیں گے۔
ایک جانب جہاں شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات اسکرین پر خواتین کے حقوق کے حوالے سے کھل کر بات کرتی نظر آتی ہیں تو وہیں می ٹو مہم پاکستان میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ ایسا سنگین معاملہ بنتی جارہی ہے جس کے بعد شوبز کے متعدد ستاروں نے ڈان نیوز سے اس پر بات کرنے سے گریز کیا۔
مذکورہ مہم کے پاکستان سمیت دیگر ممالک پر اثرات اس حد تک دکھائی نہیں دے رہے جیسا کہ اس سے توقع کی جارہی تھی اور آج بھی ان ممالک میں کام کے مقامات پر خواتین کو مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کے واقعات پیش آرہے ہیں اور ان میں سے انتہائی کم یا نا ہونے کے برابر واقعات رپورٹ ہوتے ہیں، جس کی ایک وجہ معاشرے میں ورکنگ خواتین کے حوالے سے پایا جانے والے منفی خیالات بھی ہیں۔
لیکن اس سب کے باوجود یہ مہم ان متاثرین کی کسی حد تک داد رسی کا باعث بھی بنی ہے جو کم سے کم خود کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی سطح پر سامنے لاتے ہیں اور اس کی وجہ بننے والے محرکات اور افراد کے چہروں کو بے نقاب کرتے ہیں۔