پاکستان

بلاول بھٹو کی آمد سے قبل خورشید شاہ کے گھر پر نیب کا ’چھاپہ‘

تلاشی لی تاہم کچھ برآمد نہیں ہوا اس لیے کچھ بھی لےکر نہیں جارہے ہیں، نیب سکھر کا خورشید شاہ کے بیٹے کو جواب
|

قومی احتساب بیورو (نیب) سکھر کی جانب سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی آمد سے کچھ دیر قبل ہی سینئر رہنما خورشید شاہ کی رہائش گاہ پر 'چھاپہ' مارا گیا جس پر پارٹی کے کارکنوں نے احتجاج کیا۔

اس ضمن بتایا گیا کہ نیب افسران نے مجسٹریٹ کے ہمراہ سندھ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی میں پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کی رہائش گاہ پر ’شواہد جمع‘ کرنے کے لیے تلاشی لی۔

مزید پڑھیں: پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ گرفتار

واضح رہے کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور رکن اسمبلی خورشید شاہ 9روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے ہیں۔

سکھر کی احتساب عدالت کے جج امیر علی مہیسر نے خورشید شاہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی سماعت کی تھی۔

اطلاعات کے مطابق نیب ٹیم کی جانب سے اس وقت چھاپہ مارا گیا جب وہاں پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی آمد کے حوالے سے تیاریاں کی جارہی تھیں۔

فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق نیب ٹیم کی کارروائی ایک گھنٹے سے زائد تک جاری رہی تاہم محکمہ انسداد کرپشن کو کوئی شواہد یا دستاویزات نہیں مل سکیں۔

علاوہ ازیں نیب سکھر نے خورشید شاہ کے گھر کی پیمائش بھی کی۔

نیب ٹیم کی جانب سے کمروں کی تلاشی، بنگلے کی پیمائش، چھاپے کی اطلاع پر سیکڑوں کارکنان گھر کے باہر جمع ہوگئے اور نیب کے خلاف نعرے بازی کرنے لگے۔

خورشید شاہ کے گھر کے باہر مظاہرین کی موجودگی پر مقامی پولیس کو بھی طلب کرلیا گیا۔

نیب کی ٹیم نے تلاشی مکمل کرنے کے بعد خورشید شاہ کے صاحبزادے و رکن صوبائی اسمبلی سید فرخ شاہ کو لکھ کر دیا کہ ’نیب نے مجسٹریٹ کی موجودگی میں تلاشی لی تاہم کچھ برآمد نہیں ہوا اس لیے کچھ بھی لےکر نہیں جارہے ہیں‘۔

واضح رہے کہ نیب کی مشترکہ ٹیم نے آمدن سے زائد اثاثے سے متعلق کیس میں پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کو 18 ستمبر کو اسلام آباد میں بنی گالہ میں قائم ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا تھا۔

مزیدپڑھیں: آمدن سے زائد اثاثے: خورشید شاہ 9 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

اگلے دن خورشید شاہ کی طبیعت ناساز ہونے پر انہیں مقامی ہسپتال کے امراض قلب وارڈ میں منتقل کردیا گیا تھا جہاں ڈاکٹرز نے ان کا معائنہ کیا تھا۔

نیب ذرائع کے مطابق پی پی پی رہنما کے خلاف نیب میں 3 تحقیقات چل رہی ہیں اور ان کے خلاف تمام مقدمات میں ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا گیا۔

خورشید شاہ نے نیب کی جانب سے عائد تمام الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔

خورشید شاہ کے خلاف انکوائری

خیال رہے کہ 31 جولائی کو نیب نے رکن قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے خلاف انکوائری کی منظوری دی تھی، جس کے بعد اگست میں تحقیقات کا باقاعدہ آغاز کیا گیا تھا۔

پی پی پی رہنما پر ہاؤسنگ سوسائٹی میں فلاحی پلاٹ حاصل کرنے کا الزام ہے جبکہ بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والے ادارے نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی اپنے فرنٹ مین یا ملازمین کے نام پر بے نامی جائیدادیں بھی ہیں۔

نیب کے مطابق خورشید شاہ کے خلاف انکوائری میں قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 (اے) اور شیڈول کے تحت بیان کردہ جرائم کے کمیشن میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔

مزیدپڑھیں: آصف زرداری کی گرفتاری: پیپلز پارٹی کا ملک گیر احتجاج کا اعلان

اگست میں احتساب کے ادارے نے سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پر مبینہ کرپشن کے ذریعے 500 ارب روپے سے زائد کے اثاثے بنانے کا الزام عائد کیا تھا لیکن پی پی پی کے رہنما نے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

نیب ذرائع کے مطابق خورشید شاہ اور ان کے اہلخانہ کے کراچی، سکھر اور دیگر علاقوں میں 105 بینک اکاؤنٹس موجود ہیں، اس کے علاوہ پی پی رہنما نے اپنے مبینہ فرنٹ مین ’پہلاج مل‘ کے نام پر سکھر، روہڑی، کراچی اور دیگر علاقوں میں مجموعی طور پر 83 جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔

ان دستاویز میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے پہلاج رائے گلیمر بینگلو، جونیجو فلور مل، مکیش فلور مل اور دیگر اثاثے بھی بنا رکھے ہیں۔

اس ضمن میں مزید بتایا گیا تھا کہ خورشید شاہ نے مبینہ فرنٹ مین لڈو مل کے نام پر 11 اور آفتاب حسین سومرو کے نام پر 10 جائیدادیں بنائیں۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس میں آصف علی زرداری گرفتار

مذکورہ ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے اپنے مبینہ ’فرنٹ مین‘ کے لیے امراض قلب کے ہسپتال سے متصل ڈیڑھ ایکڑ اراضی نرسری کے لیے الاٹ کرائی، اس کے علاوہ خورشید شاہ کی بے نامی جائیدادوں میں مبینہ طور پر عمر جان نامی شخص کا بھی مرکزی کردار رہا جس کے نام پر بم پروف گاڑی رجسٹرڈ کروائی گئی جو سابق اپوزیشن لیڈر کے زیر استعمال رہی۔

اس کے علاوہ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسلام آباد میں خورشید شاہ کا زیر استعمال گھر بھی عمر جان کے نام پر ہے اور سکھر سمیت دیگر علاقوں میں تمام ترقیاتی منصوبے عمر جان کی کمپنی کو فراہم کیے گئے۔

نیب ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ ادارے نے خورشید شاہ کی رہائشی اسکیموں، پیٹرول پمپز، زمینوں اور دکانوں سے متعلق تفصیلات بھی حاصل کرلیں ہیں۔

خورشید شاہ بھی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل، مریم نواز اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز سمیت اپوزیشن رہنماؤں کی اس طویل فہرست میں شامل ہوگئے، جو کرپشن کے الزامات پر زیر حراست یا ضمانت پر ہیں۔