پاکستان

’میڈیا ورکرز کی مرضی کے بغیر کوئی قانون ان پر مسلط نہیں کیا جائے گا‘

میڈیا ٹریبونلز کا ڈرافٹ مشاورت کے مراحل میں ہے، میڈیا کے اسٹیک ہولڈرز کی رائے کے بعد اسے حتمی شکل دیں گے، مشیر اطلاعات

وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کی تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت میڈیا کو ذمہ دار کردار ادا کرتے دیکھنا چاہتی ہے تاہم اس سلسلے میں کوئی قانون زبردستی مسلط نہیں کیا جائے گا۔

معاون خصوصی نے کہا کہ پاکستان کو بہتر حالات پر گامزن کرنے اور ملک میں آنے والی مثبت تبدیلوں کو اجاگر کرنے اور دنیا میں بہتر تصور پیش کرنے کے لیے میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ملک میں سرمایہ کاری لانا چاہتا ہے میڈیا پر آنے والے بے سروپا تبصروں اور منفی رپورٹنگ کے باعث اس کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت آپ کے سامنے جوابدہ ہے لیکن قومی مفاد کے حوالے سے چلائی جانے والی خبروں میں ذمہ داری چاہتے ہیں، اگر ملک کے اہم معاملات کے حوالوں سے خبر ہوں تو متعلقہ حکام کی رائے بھی لی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا 'میڈیا کورٹس' بنانے کا اعلان

انہوں نے کہا کہ پریس کونسل میں میڈیا کارکنان کی شکایات کا ازالہ نہیں کیا جاتا جبکہ وزارت اطلاعات کے بجائے پاکستان الیکٹرونک میڈیا اتھارٹی (پیمرا)، جو ایک ریگولیٹر ہے، اس کا کام ہے کہ کسی چیننل کو لائسنس دینے سے قبل کارکنان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت لے۔

انہوں نے بتایا کہ مختلف عدالتوں میں 658 کیسز ایسے ہیں، جس میں میڈیا کے مختلف ادارے دوسرے اداروں کے ساتھ پنجہ آزمائی کررہے ہیں، جس سے نہ صرف صحافیوں کے مفادات بلکہ قومی مفاد بھی منسلک ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس صورتحال پر بیٹھ کر بات چیت ہوئی تاہم ابھی تک حکومت نے میڈیا ٹریبونلز کا حتمی ڈرافٹ تیار نہیں کیا جس کی منظوری لی جاسکے بلکہ ایک کابینہ اجلاس میں اراکین نے تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ ذاتی عناد کی بنا پر میڈیا میں ان کی پگڑیاں اچھالی جارہی ہیں جس پر وزیراعظم نے تجاویز طلب کی تھیں کہ کس طرح میڈیا کو ذمہ دارانہ کردار کے لیے منسلک کیا جائے۔

مزید پڑھیں: سی پی این ای نے میڈیا کورٹس کی تجویز کو مسترد کردیا

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم کو تجویز دی گئی کہ پیمرا کے ڈھانچے کو ازسر نو تشکیل دیا جائے جس کے ساتھ شکایات کی کونسل بھی منسلک ہو جس سے میڈیا ملازمین کے مسائل کا حل بھی ممکن ہوسکے۔

معاون خصوصی نے کہا کہ جب پیمرا اپنے ضابطہ اخلاق پر عمل کرتا ہے تو اپوزیشن کی جانب سے شور مچایا جاتا ہے کہ یہ حکومت کروارہی ہے لہٰذا حکومت کی خواہش ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی سرپرستی میں ایک ایسا میکانزم تشکیل دے دیا جائے جو حکومتی بیساکھیوں سے آزاد ہو تاہم وہ ایک لائحہ عمل طے کرنا چاہتی ہے جس میں میڈیا کی سمت کا تعین کردیا جائے۔

فردوس عاشق اعوان نے یقین دہانی کروائی کہ وزارت قانون کی مشاورت سے ہم مختلف تجاویز آپ کے سامنے لائیں گے، ہم یہ نہیں کریں گے کہ اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کیے بغیر کسی چیز کو آپ کے اوپر مسلط کردیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کورٹس کی تشکیل کے سلسلے میں حتمی ڈرافٹ کو وزیراعظم عمران خان کی دورہ امریکا سے واپسی پر ان کے سامنے منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا اور اس سلسلے میں آپ سے بھی رائے لی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:میڈیا پر سنسرشپ مارشل لا ادوار سے بدتر ہے، رضا ربانی

مشیر اطلاعات نے کہا کہ کچھ صحافی حکومت کا کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں اور جنہوں نے اپنی جانب سے ہی دعویٰ کردیا تھا کہ ڈرافٹ تیار ہوچکا ہے تاہم ہم پریس کونسل، پریس کلبز، سی پی این ای، بی بی اے، اے پی این ایس اور پارلیمانی ایسوسی ایشن سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کریں گے کیوں کہ زبردستی مسلط کردہ چیزیں غیر مستحکم ہوتی ہیں۔

انہوں نے صحافیوں کو یقین دلایا کہ پارلیمان میں قانون سازی منظور کروانے سے پہلے صحافتی تنظیموں کی رائے لی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ ڈرافٹ میں سب سے اہم بات یہ شامل ہے کہ میڈیا ورکرز کے معاملے پر اخبار یا چیننلز کے مالکان کو جوابدہ کیا جائے گا، حکومت سولو فلائٹ نہیں کرے گی میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے جسے اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔

اس موقع پر معاون خصوصی نے پارلیمانی رپورٹرز کے لیے مختص احاطے میں سہولیات فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کے تمام پریس کلب سے صحافیوں کی فہرست طلب کی ہیں جس کے تحت ان کے علاج و رہائش کے سلسلے میں میکانزم تشکیل دیا جائے گا۔

علاوہ ازیں مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اجاگر کرنے پر میڈیا کا شکریہ ادا کیا۔