دنیا

سوڈان:طویل احتجاج کے بعد نومنتخب وزیراعظم نے کابینہ تشکیل دے دی

نئی کابینہ میں خارجہ سمیت 4 اہم وزارتیں خواتین کو دی گئی ہیں جس کا اعلان نومنتخب وزیراعظم عبداللہ حمدوک نے کیا۔

سوڈان کے نومنتخب وزیراعظم نے فوج کی جانب سے سابق صدر عمر البشیر کا تختہ الٹنے کے بعد ہونے والے طویل احتجاج کے نتیجے میں طے پانے والے معاہدے کے تحت پہلی مرتبہ اپنی کابینہ کا باقاعدہ اعلان کردیا۔

خبر ایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق نئی کابینہ میں سوڈان کی پہلی خاتون وزیر خارجہ اور ورلڈ بینک کی سابق رکن بھی شامل ہیں۔

سوڈان کے وزیراعظم عبداللہ حمدوک نے دارالحکومت خرطوم میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ’ آج سے سوڈان کی تاریخ کے نئے دور کا آغاز ہوتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ ہم جنگ کا اختتام چاہتے ہیں اور مستحکم امن کا قیام چاہتے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: سوڈان: حکومت سازی کے حتمی معاہدے پر فوج اور مظاہرین کے دستخط

وزیراعظم عبداللہ حمدوک نے کہا کہ کابینہ فوری طور پر انتظامیہ کو درپیش چیلنجز پر کام کا آغاز کرے جس میں بحران کی شکار معیشت پر قابو پانا اور ملک میں قیام امن لانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قیام امن سے فوجی اخراجات میں تیزی سے کمی آئے گی کیونکہ ملک کا 80 فیصد سے زائد بجٹ ملٹری اخراجات پر مبنی ہوتا ہے۔

سوڈان کےو زیراعظم نے کہا کہ اگر ہم ملٹری اخراجات میں کمی لاتے ہیں تو وہ صحت اور تعلیم پر خرچ ہوگا۔

خیال رہے کہ نئی کابینہ میں 4 خواتین شامل ہیں جو سابق صدر کے خلاف بغاوت میں سوڈانی خواتین کے کردار کا واضح اعتراف ہے۔

سوڈان کی کابینہ کا اعلان گزشتہ ماہ کے اواخر میں متوقع تھا لیکن جمہوریت نواز تحریک میں اندرونی مذاکرات کے بااعث اس کے قیام میں تاخیر ہوئی۔

عبداللہ حمدوک نے سوڈان کی تاریخ میں پہلی خاتون وزیر خارجہ بننے کا اعزاز اسما عبداللہ کو دیا، انہوں ںے خواتین کو کھیل اور نوجوانوں کی وزارت، اعلیٰ تعلی، مزدوروں اور سماجی ترقی کی وزارتیں بھی سونپیں۔

وزیراعظم عبداللہ حمدوک جو اقوام متحدہ کی اقتصادی کمیشن برائے افریقہ کے سابق عہدیدار بھی رہے ہیں، نے ورلڈ ببینل کے سابق رکن ابراہیم البداوی کو وزیر خزانہ منتخب کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سوڈان میں فوجی بغاوت، صدر عمر البشیر گرفتار

انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی حامی تحریک کے ساتھ 20 رکنی کابینہ کی تکمیل کے لیے 2 عہدوں سے متعلق مذاکرات جاری ہیں۔

سوڈانی وزیراعظم نے امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ سوڈان کا نام دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست سے نکالا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ ہمارا مطالبہ پورا کرے گی کیونکہ سوڈان کسی کے لیے خطرہ نہیں ہے۔

خیال رہے کہ 17 اگست کو سوڈان میں سابق صدر عمرالبشیر کی برطرفی کے بعد حکومت سازی پر شروع ہونے والے احتجاج اور مظاہرے کئی ماہ بعد اختتام کو پہنچ گئے تھے اور فوجی حکومت اور مظاہرین کی قیادت نے حکومت سازی اور انتخابات کے لیے طے پانے والے حتمی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

سوڈان کی حکمران فوجی کونسل کے نائب سربراہ جنرل محمد ہمدان داغالو اور اپوزیشن کے نمائندے احمد الربی نے 4 اگست کو تاریخی معاہدے کو حتمی شکل دی تھی، جس پر دونوں نے دستخط کیے تھے۔

فوجی کونسل اور مظاہرین کے درمیان ثالثی انجام دینے والے افریقی یونین اور ایتھوپیا کے نمائندے بھی تقریب میں شریک تھے، اس کے علاوہ ایتھوپیا، جنوبی سوڈان اور کینیا کی قیادت بھی موجود تھی۔

حتمی معاہدے کی تقریب میں مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے نمائندے بھی موجود تھے، جنہیں خرطوم میں بااثر ممالک سمجھا جاتا ہے کیونکہ سعودی سربراہی میں اتحادیوں کی یمن جنگ میں سوڈان کے فوجی بھی حوثی باغیوں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔

یاد رہے کہ رواں برس اپریل میں فوجی کونسل نے سوڈان کی حکومت اس وقت اپنے ہاتھ میں لی تھی جب کئی ماہ سے جاری مظاہروں اور احتجاج کے بعد فوج نے اس وقت کے صدر عمرالبشیر کو معزول کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:سوڈان: فوج اور مظاہرین کے درمیان تاریخی معاہدہ طے

فوجی کونسل کی حکمرانی کے خلاف مظاہرین نے اپنا احتجاج جاری رکھا تھا اور اس دوران فوج کی جانب سے پرتشدد کارروائیاں بھی کی گئیں تھی، جس میں کئی مظاہرین جاں بحق اور زخمی ہوئے تھے۔

فوج کی جانب سے 3 جون کو خرطوم میں مظاہرین پر فائرنگ کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد مارے گئے تھے، جس کے بعد عوام میں مزید اشتعال پھیل گیا تھا۔

مظاہروں کے باوجود فوجی کونسل اور فورسز آف فریڈم اینڈ چینج (ایف ایف سی) کے نام سے اپوزیشن اتحاد کے درمیان حکومت سازی اور ملک میں انتخابات کے حوالے سے مذاکرات بھی ہوتے رہے، جس کے لیے ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابی محمد نے ثالثی کی اور افریقی یونین نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔

ایف ایف سی کے رہنما محمد ناغے الاصام نے معاہدے کے لیے ہونے والے مذاکرات اور معاہدے طے پانے کے بعد بھی 3 جون کو ہونے والے خون ریز واقعے کی تفتیش کا مطالبہ کیا تھا اور جب یہ معاہدہ طے پارہا تھا تو اپوزیشن کے متعدد رہنماؤں اور عوام کی جانب سے اس واقعے کی تفتیش کی شق بھی اس میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

حکومت سازی کا معاہدہ

افریقی یونین اور ایتھوپیا کی ثالثی میں حکومت سازی کے معاہدے پر اصولی اتفاق 5 جولائی 2019 کو ہوا تھا۔

معاہدے کے تحت طے پایا تھا کہ نئی حکمران تنظیم تشکیل دی جائے گی، جس میں 6 سویلین اور فوج کے 5 نمائندے شامل ہوں گے۔

مزید پڑھیں:سوڈان: فوج اور مظاہرین کے درمیان حکومت سازی کے معاہدے پر دستخط

معاہدے کے مطابق سویلین نمائندوں میں 5 رہنما الائنس فار فریڈم اینڈ چینج سے شامل ہوں گے۔

دونوں فریقین نے اتفاق کیا تھا کہ سوڈان کی نئی حکمران تنظیم کی سربراہی ابتدائی 21 مہینوں تک ایک جنرل کریں گے اور بقیہ 18 ماہ کے لیے سویلین رہنما سربراہ ہوں گے۔

گورننگ کونسل، سویلین انتظامیہ کی تشکیل کی نگرانی کرے گی جو صرف 3 برس تک فعال ہوگی، جس کے بعد انتخابات ہوں گے۔