پاکستان

اسٹیٹ بینک کسی بھی بیرونی خطرے سے نمٹنے کیلئے تیار ہے، رضا باقر

تجارتی و صنعتی رہنماؤں سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک نے یقین دہانی کروائی کہ معیشت صحیح سمت میں گامزن ہے۔

کراچی: اسٹیٹ بینک پاکستان (ایس بی پی) کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے ملکی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کی نمو کا ہدف 2.4 فیصد رکھا تھا لیکن ’ہمارے اندازے کے مطابق مالی سال 20-2019 میں شرح نمو 3.5 فیصد رہے گی‘۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسٹیٹ بینک کسی بھی بیرونی جھٹکے کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہے چاہے وہ کشمیر کی صورتحال پر فوجی چیلنج کے حوالے سے ہو یا عالمی منڈیوں میں بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتوں کا معاملہ ہو۔

ایوانِ صنعت و تجارت پاکستان کے فیڈریشن (ایف پی سی سی آئی) کی منعقد کردہ ایک تقریب میں تجارتی و صنعتی رہنماؤں سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک نے یقین دہانی کروائی کہ معیشت صحیح سمت میں گامزن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: روپے کی قدر پر نظر ہے،زیادہ عدم استحکام ہوا تو مداخلت کریں گے،گورنر اسٹیٹ بینک

ان کا مزید کہنا تھا کہ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنی پالیسیوں میں استحکام پیدا کرنا ہوگا، تقریب میں تمام کمرشل بینکوں کے سربراہان بھی موجود تھے۔

اس موقع پر صنعتی رہنماؤں کی جانب سے بتائے گئے متعدد مسائل پر جواب دیتے ہوئے رضا باقر نے کہا کہ ملکی معیشت کو بحران سے نکالنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے اپنی توجہ 3 بڑے معاملات پر مرکوز رکھی ہوئی ہے جس میں ایکسچینج ریٹ، غیر ملکی کرنسی کے ذخائر اور شرح سود شامل ہے۔

تقریب میں موجود زیادہ تر رہنما اسٹیٹ بینک کے ساتھ ساتھ حکومت کے اٹھائے گئے اقدامات کے اثرات پر تنقید کررہے تھے اور متفقہ طور پر ان کی رائے یہ تھی کہ ان اقدامات نے معیشت کو سست، سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کی جس کا نتیجہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی صورت میں نکل رہا ہے۔

مزید پڑھیں: بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باوجود گورنر اسٹیٹ بینک معیشت سے مطمئن

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ختم ہوتے ہوئے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کے ساتھ اسٹیٹ بینک کو ایکسچینج کو مصنوعی طور پر کم سطح پر رکھ کر ایڈجسٹ کرنا پڑا۔

رضا باقر کا کہنا تھا کہ سب سے زیاد حوصلہ افزا چیز کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا کم ہونا تھی جو ماضی میں 2 ارب ڈالر ماہانہ سے کم ہو کر رواں سال جولائی میں57 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی سطح پر پہنچ چکا تھا۔

مہنگائی کی بلند شرح کی شکایات کا حوالہ دیتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں مرکزی بینکس مہنگائی اور بلند قیمتوں سے مزاحمت کے لیے بلند شرح سود کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں، اسی وجہ سے اسٹیٹ بینک نے بھی پالیسی ریٹ 13.25 فیصد تک پہنچا دیا۔

یہ بھی پڑھیں: شرح سود میں مزید ایک فیصد اضافہ، 13.25 فیصد ہوگئی

مالی خسارے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ حکومت کے اختیار میں ہے جہاں اخراجات اکٹھے ہونے والے ریونیو سے بڑھ چکے ہیں اور اس نکلنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے ریونیو اکٹھا کرنا، جس کے لیے گورنر اسٹیٹ بینک نے ٹیکس پر عملدرآمد کی روایت کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔