پاکستان

چیئرمین ایف بی آر کا اسمگلرز کے خلاف 'جنگ' کا اعلان

حکومت اپنے ٹیکس بیس کو وسیع کرنے کے لیے تجارت اور سروسز پر ٹیکس عائد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گی، شبر زیدی

اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین شبر زیدی کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے تجارت اور سروسز پر ٹیکس عائد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے یہ بات مینیجمنٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایم اے پی) کی جانب منعقد کیے گئے کنوینشن سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

ایم اے پی کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ شبر زیدی نے یکم ستمبر سے اسگلنگ کرنے والوں کے خلاف 'جنگ کا اعلان' کیا ہے۔

مزید پڑھیں: ایف بی آر:سیلز ٹیکس ریٹرنز کی نگرانی کیلئے سوفٹ ویئر کا افتتاح

شبر زیدی کا کہنا تھا کہ 'اسمگل کی گئی اشیا ریٹیل مارکیٹ میں بغیر ٹیکس کے فروخت ہورہی ہیں اور اسے روکنا ہوگا، پیداواری شعبہ ٹیکس ادا کررہا ہے جبکہ تجارت اور غیر منتظم سروسز کا شعبہ ٹیکس ادائیگی سے بچ نکلتا ہے'۔

شبر زیدی نے ڈان کو بتایا کہ 'ٹیکس جمع کرنے والے ادارے ٹیکس بیس کو وسیع کرنے کے لیے جارحانہ حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے، جس میں چند اہم سروسز جیسے تعلیمی ادارے، ہسپتال، ڈاکٹر اور اساتذہ شامل ہے، کو نوٹسز جاری کیے جارہے ہیں تاکہ انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکے'۔

واضح رہے کہ بجٹ میں ایف بی آر چیئرمین نے اعلان کیا تھا کہ تمام پیشہ ور سروسز، جیسے ڈاکٹر، اساتذہ، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، وکیل اور انجینیئرز کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا لیکن ایف بی آر نے اب تک صرف ڈاکٹروں اور تعلیمی اداروں کو نوٹسز جاری کیے ہیں۔

شبر زیدی کا کہنا تھا کہ 'اب تک ایک لاکھ نوٹسز جاری کیے جاچکے ہیں تاکہ ان پیشہ ور افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکے جبکہ متعدد ریسٹورانٹ کو بھی ٹیکس ادا کرنے کا کہا گیا ہے، تمام وہ شعبے جو پیسے کما رہے ہیں، کو ٹیکس ادا کرنا پڑے گا'۔

یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر نے آن لائن ٹیکس وصولی کا آغاز کردیا

تقریب کے دوران انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستانیوں کے بیرون ممالک میں 120 ارب ڈالر کے اثاثے ہیں لیکن ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ یہ اعداد و شمار ان کا اپنا اندازا ہیں، ایف بی آر کا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ اعداد و شمار ان کی کتاب میں بیان کیے گئے طریقوں سے لگایا گیا ہے'۔

تاہم ایف بی آر نے حال ہی میں آرگنائزیشن فور اکنامک کو آپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (او ای سی ڈی) کے ٹیکس معاہدے کے تحت 41 ممالک سے 378 پاکستانی کا ڈیٹا حاصل کیا جس کے مطابق ان تمام پاکستانیوں کے بیرون ممالک 5 ارب ڈالر کے اثاثے تھے۔

مئی 2014 میں اس وقت کے وزیر خزانہ اسحٰق ڈان نے قومی اسمبلی کو خط لکھ کر کہا تھا کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی کم از کم 200 ارب ڈالر کی رقم موجود ہے تاہم انہوں نے اس بات دعوے کی کبھی وضاحت نہیں دی۔

مزید پڑھیں: ایف بی آر نے آن لائن ٹیکس پروفائل نظام متعارف کروادیا

یہاں یہ بات واضح رہے کہ معاہدے کے تحت سوئس حکومت کی جانب سے پاکستانیوں کے اثاثوں کے حوالے سے تفصیلات فراہم کیا جانا ابھی باقی ہے۔

بے نامی اثاثوں کے حوالے سے ایف بی آر چیئرمین کا کہنا تھا کہ 'بے نامی اثاثوں کی تفصیلات حاصل کرنا آسان نہیں ہے، ہمیں عدالتی فیصلوں کے ذریعے بے نامی اثاثوں کی معلومات موصول ہوتی ہیں، حکومت نے ان جائیدادوں کے خلاف مہم میں بھی تیزی کردی ہے'۔

وزیر اعظم عمران خان نے صوبائی حکومتوں کو ان جائیدادوں کی نشاندہی کا کہا ہے۔

تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے معاملے پر شبر زیدی کا کہنا تھا کہ '50 ہزار سے زائد کی اشیا کی فروخت یا خرید پر شناختی کارڈ کی شرط کو حکومت تبدیل نہیں کرے گی، ہم نے اس شرط پر 30 ستمبر تک نرمی کی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'تاجروں کو آسان ٹیکس اسکیم کی تجویز دی گئی ہے، ہم پیش کردہ ٹیکس اسکیم کے بارے میں تاجروں کے نمائندگان سے بات چیت کر رہے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایف بی آر نے ٹیکس ریٹرن فائل کرنے اور سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی ادائیگی کے لیے سافٹ ویئر متعارف کرایا ہے اور ہم انکم ٹیکس ریٹرن کو مزید آسان بنانے جارہے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایف بی آر کو سال 2018 میں 25 لاکھ ٹیکس ریٹرنز موصول ہوئے جو تاریخ میں ہم نے ایک ریکارڈ بنایا ہے، ٹیکس ادارہ رواں سال ان اعداد و شمار کو بڑھا کر 40 لاکھ تک پہنچانے کا سوچ رہا ہے'۔