مقبوضہ کشمیر میں حکومتی پابندیوں کی حمایت پر پریس کونسل انڈیا پر تنقید
بھارتی میڈیا اور پریس کونسل آف انڈیا (پی سی آئی) کے اراکین نے اپنی ہی تنظیم کو حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں سخت پابندیوں کی حمایت کرنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
گزشتہ ہفتے 'پی سی آئی' نے اخبار ’کشمیر ٹائمز‘ کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھاسن کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی پابندیاں ختم کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر مداخلت کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔
بھارتی نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ کی رپورٹ کے مطابق پی سی آئی کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں مواصلاتی رابطوں اور آزاد نقل و حرکت پر پابندی کو ملک کے میڈیا واچ ڈاگ کی جانب سے ’پریس کی آزادی کو محفوظ’ کرنے کی کوشش قرار دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر سے پابندیاں جلد ختم کردیں گے، بھارتی حکومت کی عدالت کو یقین دہانی
تاہم مقامی صحافیوں کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں پریس کے افعال بری طرح متاثر ہیں۔
دوسری جانب بھارتی اخبار 'دی ہندو' نے اپنے اداریے میں لکھا کہ ’یہ تصور کے کہ ایک کھلا معاشرہ، ایک آزاد میڈیا کسی بھی طرح قومی سالمیت اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے، آمریت کی توجیہہ سے کم نہیں‘۔
ایڈیٹوریل میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ بھارت کو صحافت میں تشویشناک حد تک معیار میں کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور پی سی آئی کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری کبھی اتنی اہم نہیں تھی جتنی آج ہے‘۔
چنانچہ ’پی سی آئی کو حکومت وقت کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے اپنا کردار نبھانا چاہیے‘۔
ادھر 'آؤٹ لُک میگزین' کے سابق ایڈیٹر اور کونسل کے سابق رکن بھی ان اراکین میں شامل ہیں جنہوں نے اس اقدام پر تنقید کی۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں صورتحال کی بہتری کیلئے وقت درکار ہے، بھارتی سپریم کورٹ
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر پریس کونسل آزاد میڈیا کو قوم کی سالمیت کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ قارئین اور ناظرین کو خصوصی حالات میں اندھیرے میں رکھا جاسکتا ہے تو یہ نہ صرف بھارتی جمہوریت کے لیے سیاہ دن ہے بلکہ یہ کسی کے لیے باعثِ حیرت نہیں ہوگا کہ معاملات اس نہج پر آپہنچے ہیں‘۔
پی سی آئی چیئرمین سی کے پرساد کی جانب سے اس اقدام نے اختلاف رائے کو جنم دیا ہے جس میں کچھ اراکین کا کہنا تھا کہ سی کے پرساد نے کسی سے مشورہ کیے بغیر یہ درخواست دائر کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پریس کونسل کو ابھی تک کسی بھی میڈیا ہاؤس کی جانب سے کوئی غلط کام کرنے کے حوالے سے شکایت موجود نہیں ہوئی، لہٰذا اس میں مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں 4 ہزار شہریوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، بھارتی مجسٹریٹ
ایک کونسل رکن نے 'دی وائر' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’درخواست کا متن خاصہ خطرناک ہے حالانکہ اصول کے مطابق چیئرمین کوئی بھی فیصلے کے حوالے سے اجلاس میں دیگر اراکین کو آگاہ کرنے کا پابند ہوتا ہے، لیکن انہوں نے تو یہ کسی کو بتانا بھی گوارا نہیں کیا کہ پی سی آئی انورادھا بھاسن کیس میں مداخلت کر رہی ہے۔
اس سے قبل 16 اگست کو ہونے والی سماعت میں مرکزی حکومت نے بھارتی سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ وہ ’آئندہ چند روز میں‘ مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کی نقل و حرکت اور مواصلاتی روابط پر عائد پابندی اٹھا لیں گے۔