شکارپور: پولیس کے 'اقدامات' سے مغوی گلوکار بازیاب
حیدر آباد: سندھ پولیس نے اغواکاروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے مغوی گلوکار اور ان کے 5 رکنی بینڈ کو بازیاب کروالیا۔
خیال رہے کہ چند ہائی پروفائل کیسز و دیگر میں مغویوں کو بازیاب کرانے کے لیے پولیس 'اغوا کے بدلے گرفتاری' کا حربہ استعمال کرتی ہے تاکہ رد عمل میں قید مغویوں کو بازیاب کروایا جاسکے اور یہی طریقہ پولیس نے شکارپور کے ڈکیتوں کے گروہ کے ساتھ گلوکار اور ان کے 5 رکنی بینڈ کو بازیاب کرانے کے لیے اپنایا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس کو ڈکیتوں کے خلاف آپریشن میں سخت چیلنجز کا سامنا تھا جن میں مجرمان کے پاس جدید اسلحہ، ڈکیتوں کے ٹھکانوں کے حوالے سے زمینی صورتحال مشکل ہونا اور دریائے سندھ میں تیزی شامل ہے، جس کی وجہ سے پولیس آپریشن کامیاب نہ ہوسکا تاہم اغوا کے بدلے گرفتاری کا حربہ کامیاب رہا۔
سینئر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ 'ہم نے ڈکیتوں کے چند اہلخانہ اور قبائلی سرداروں کو گرفتار کیا جبکہ یہ طریقہ کامیاب رہا'۔
مزید پڑھیں: چھوٹو گینگ کے سرغنہ سمیت 3 ملزمان کو 298 برس کی قید
لاڑکانہ کے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل (ڈی آئی جی) عرفان بلوچ کا کہنا تھا کہ 'گڑھی تیغو سے ڈکیتوں نے مغویوں کو رہا کردیا ہے جنہیں کشتی کے ذریعے سکھر منتقل کیا گیا'۔
پولیس نے ڈکیتوں کے درجنوں قریبی رشتہ داروں کو گرفتار کیا جن میں تیغانی قبیلے کے سردار، بھانجے اور بھتیجے شامل ہیں۔
ان لوگوں کو بیلو تیغانی گروہ پر گلوکار اور اس کے بینڈ کو رہا کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق شکارپور کے نپرکوٹ تھانے کی حدود میں گڑھی تیغو کے علاقے میں پولیس آپریشن کو دریائے سندھ میں تیزی کے پیش نظر روک دیا گیا تھا جس کی وجہ سے نقل و حرکت میں مشکلات کا سامنا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'پولیس گڈو بیراج کے نزدیک دریائی علاقے تک پہنچ نہیں پارہی تھی کیونکہ یہ سارا علاقہ زیر آب آچکا تھا'۔
ڈی آئی جی نے ڈان کو بتایا کہ 'ہم نے ڈکیتوں کی سپلائی اور ان کے راستے بند کردیے ہیں'۔
مغویوں میں گلوکار غلام نبی عرف جگر جلال اور ان کا بینڈ شامل تھا جن میں ان کا بیٹا آفتاب احمد اور بھتیجا امیر علی بھی موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: پولیس کا اسٹریٹ کرائم میں ملوث ’بین الاقوامی گروہ‘کی گرفتاری کا دعویٰ
سکھر کے ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل ڈاکٹر جمیل احمد کا کہنا تھا کہ 'پس پردہ ثالثی کا کام جاری ہے اور جو ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں ان پر پولیس سمیت ڈکیتوں اور مغویوں کو بھی بھروسہ ہے'۔
گلوکار نے ڈکیتوں کی جانب سے ریکارڈ کی گئی ٹیلیفونک گفتگو میں کہا تھا کہ 'وہ ایک ایسے علاقے میں ہیں جہاں فوج و پولیس دونوں ہی نہیں پہنچ سکتی اور بہتر ہے کہ ڈکیتوں کے سرداروں سے رابطہ کیا جائے ورنہ مزید نقصان ہوسکتا ہے'۔
پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ایک گینگسٹر نے لڑکی کی آواز میں بات کرتے ہوئے گلوکاروں سے گڑھی تیغو میں کام کرنے اور اپنے ساتھ چند خاتون ڈانسرز کو لانے کا کہا تھا۔
تاہم گلوکار اپنے ساتھ خواتین کو نہیں لے کر گئے جس پر ڈکیتوں نے غصے میں آکر انہیں اغوا کیا۔
پولیس افسر کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں ہمیشہ ڈکیت بہتر پوزیشن پر رہتے ہیں، 4 اضلاع کے درمیان ہونے کی وجہ سے جب بھی آپریشن کیا جاتا ہے تو ڈکیتوں کو بھاگنے میں آسانی ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'جس طرح کا اسلحہ ڈکیت استعمال کرتے ہیں اس سے بھی پولیس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ اینٹی ایئرکرافٹ گن سے پولیس کی گاڑیوں پر فائرنگ کرتے ہیں جن کے آگے بلٹ پروف گاڑیاں بھی کھڑی نہیں رہ پاتیں'۔
واضح رہے کہ منگل کے روز انسپیکٹر راؤ شفیع اللہ، جو ڈی ایس پی کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے، اس وقت شہید کردیا گیا تھا جب وہ علاقے کا معائنہ کرنے کے لیے اپنی بکتر بند گاڑی سے باہر آئے تھے۔