مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کا خطرہ ہے، عالمی ادارے کی وارننگ
دنیا میں نسل کشی کی روک تھام کے لیے وقف عالمی ادارے جینوسائڈ واچ نے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر اور اس کی ایک ریاست آسام کے لیے انتباہ جاری کردیا۔
جینوسائڈ واچ کی ویب سائٹ کے مطابق نسل کشی کی ابتدائی مراحل کی علامات جاری ہونے پر این جی او نے یہ وارننگ جاری کیں۔
واضح رہے کہ 1999 میں ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن کی جانب سے بنائی گئی یہ تنظیم نسل کشی کی پیش گوئی، روک تھام اور اس پر سزا دینے کے لیے موجود ہے۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے باوجود بھارت مخالف مظاہرے
اس تنظیم کی جانب سے حالیہ نسل کشی کا انتباہ مقبوضہ کشمیر کے لیے جاری کیا گیا، جس میں نسل کشی کے عمل کی نشاندہی کی گئی، جو ڈاکٹر اسٹینٹن کی جانب سے نسل کشی کے 10 مراحل پر مبنی ہے۔
- درجہ بندی: ہندو اور سکھ بھارتی فوج 'ہم' بمقابلہ کشمیری مسلم شہری 'وہ'۔
- علامت: مسلمانوں کے (آئی ڈی کارڈز پر) مسلم نام، کشمیری زبان، لباس، مساجد۔
- امتیازی سلوک: 1990 تک ہندو پنڈت معاشی طور پر غالب رہے، بی جے پی نے ہندو اقتدار پر زور دیا۔
- انسانیت: مسلمان کو 'دہشت گرد'، 'علیحدگی پسند'، 'مجرم'، 'باغی' کہا جاتا ہے۔
- تنظیم: بھاری ہتھیاروں سے لیس 6 لاکھ بھارتی افواج اور پولیس مقبوضہ کشمیر میں غالب ہے۔
- تقسیم کی سیاست: مودی اور بی جے نے مسلم دشمنی کو ہوا دی، سوشل میڈیا پر جھوٹ کو پھیلا گیا۔
- تیاری: بھارتی فوج نے کشمیر پر قبضہ کیا جبکہ بی جے پی رہنماؤں نے کشمیر کے 'حتمی حل' پر بات کی۔
- ظلم و ستم: کشمیری مسلمان محصور ہیں اور انہیں گرفتار، تشدد، ریپ اور قتل کیا جارہا ہے۔
- خاتمہ: 1990 سے بھارتی فوجیوں اور مزاحمت کاروں کی جانب سے کم از کم 25 قتل عام ہوچکے ہیں، جس میں اموات کی تعداد 25 سے زائد ہے۔
- انکار: نریندر مودی اور بی جے پی کہتے ہیں کہ ان کا مقصد 'خوشحالی لانا' اور 'دہشت گردی کو ختم' کرنا ہے، وہ کسی بھی قتل عام سے انکار کرتے ہیں جبکہ کہتے کسی بھی بھارتی فوجی یا پولیس نے کبھی تشدد، ریپ یا قتل کی کوشش نہیں کی۔
ان تمام حالات کے تناظر میں جینوسائڈ واچ کی جانب سے اقوام متحدہ اور اس کے اراکین سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بھارت کو خبردار کریں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی نہ کرے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی
واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے متنازع علاقے کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد وادی میں مزاحمت کو روکنے کے لیے مکمل سیکیورٹی لاک ڈاؤن اور مواصلاتی نظام معطل ہے جبکہ اب تک مقبوضہ وادی میں کم از کم 4 ہزار افراد، جس میں زیادہ تک نوجوان ہیں انہیں حراست میں لیا گیا ہے۔