پاکستان

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ایک ریفرنس خارج

صدر کو خطوط لکھنے کا معاملہ اتنا سنگین نہیں کہ مس کنڈکٹ کا باعث بنے اور اس کی بنیاد پر جسٹس عیسیٰ کو ہٹایا جائے، فیصلہ
|

سپریم جوڈیشل کونسل( ایس جے سی ) نے عدالت عظمیٰ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدر مملکت عارف علوی کو خطوط لکھنے پر دائر کیا گیا ریفرنس خارج کردیا۔

اس حوالے سے جاری فیصلے میں سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ کئی وجوہات کی بنا پر کونسل کو صدر مملکت کو خطوط لکھنے کا معاملہ اتنا سنگین نہیں لگا کہ وہ مس کنڈکٹ کا باعث بنے اور اس کی بنیاد پر انہیں (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹایا جاسکے۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے ریفرنس پر جاری فیصلے میں کہا کہ جسٹس قاضی عیسیٰ نے صدرِ مملکت کو 3 خطوط لکھنے کا اعتراف کیا لیکن وہ خطوط میڈیا میں لیک کرنے کی بات مسترد کی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ایسے خطوط کا مقصد یا متن بعض افراد کے لیے قابل اعتراض ہوسکتا ہے لیکن یہ خطوط نجی نوعیت کے تھے، جن کا مقصد صدر مملکت کے علاوہ کسی اور کو پڑھانا اور نقل کروانا نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز کی چیف جسٹس سے اپنے خلاف ثبوت فراہم کرنے کی درخواست

اس حوالے سے جاری فیصلے میں سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ جہاں تک خطوط کے متن کی بات ہے ایسا ہوسکتا ہے کہ صدر مملکت کی جانب سے ریفرنس دائر کیے جانے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جن افراد پر شک ہو ان کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہونے کا احساس ہوا ہو اور اسی احساس کے تحت وہ شائستگی کی حد سے تجاوز کرگئے ہوں۔

سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے میں کہا گیا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب خطوط لکھے گئے اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے سسر اور بیٹی کی صحت کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھے اور اسی دباؤ کی وجہ سے شاید ہراساں ہونے کا احساس زیادہ ہوا ہو اور ان کی قوت فیصلہ بھی متاثر ہوئی ہو۔

فیصلے میں کہا کہ اس تناظر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو لکھے گئے نجی خطوط میں مبینہ بداخلاقی سنگین نہیں تھی کہ اس کی بنیاد پر انہیں (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹایا جاسکے۔

عدالتی فیصلے میں جسٹس عیسیٰ کی جانب سے صدر کو لکھے گئے خط میں وزیر اعظم عمران خان کا ذکر کرنے کا معاملہ بھی سامنے رکھا گیا اور کہا گیا کہ جس طرح بھی دیکھیں اس معاملے میں وزیراعظم اور ان کی مختلف بیویوں اور بچوں کو خطوط کے ذریعے گھسیٹنا غلط زمرے میں تھا۔

تاہم جج کے خلاف لگائے گئے مس کنڈکٹ کے الزامات کو جج کی جانب سے کسی دیگر آئینی عہدیدار کے خلاف فرضی الزامات کے زمرے میں نہیں لیا جاسکتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریفرنس پڑھا تھا

سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے فیصلے میں فریق جج کی جانب سے شوکاز نوٹس کے جواب میں بتائے گئے 11 نکات پر بھی بات کی اور انہیں بے بنیاد قرار دیا۔

ان نکات میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ریفرنس کی کاپی دکھائی تھی اور اپنے خلاف دائر ریفرنس کے نکات نوٹ کرنے کے لیے وقت فراہم کیا تھا۔

فیصلے کے مطابق صدرِ مملکت کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس موصول ہونے کے فوراً بعد سپریم کورٹ کے رجسٹرار (جو کونسل کے سیکریٹری بھی ہیں) وہ ریفرنس کو چیف جسٹس کے چیمبر میں اس لیے لائے کہ اس کی اطلاع دی جاسکے اور اس پر غور کیا جائے کیونکہ چیف جسٹس سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین بھی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سینئر ججز کے خلاف ریفرنسز کی سماعت 14 جون کو مقرر

سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ ریفرنس کے مطالعے اور معاملے پر غور کے بعد چیف جسٹس نے غیر رسمی طور پر جسٹس قاضی عیسیٰ کو بلایا اور ریفرنس دائر کیے جانے سے متعلق آگاہ کیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس نے بذریعہ انٹرکام رابطہ کرکے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیمبر میں بلایا، صدر مملکت کی جانب سے دائر ریفرنس سے آگاہ کیا اور اطلاع کے لیے پڑھنے کا کہا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پورا ریفرنس پڑھا اور اس میں اپنا وقت لیا۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے فیصلے میں مزید کہا کہ ریفرنس پڑھنے کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نوٹ کرنے کے لیے کاغذ اور پینسل مانگا، جو چیف جسٹس نے انہیں خود فراہم کیے۔

فیصلے کے مطابق ریفرنس پڑھنے اور اہم نکات نوٹ کرنے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ ریفرنس کی کاپی حاصل کرنے کے لیے صدر مملکت کو خط لکھنا چاہتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ آئین کے تحت صدر، کونسل کے ذریعے ایک جج کی کارکردگی سے متعلق انکوائری کرواسکتے ہیں لیکن ان پر متعلقہ جج کو ریفرنس کی کاپی فراہم کرنا لازم نہیں۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس سے ریفرنس کی کاپی مانگی لیکن چیف جسٹس نے انہیں بتایا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے اور جوڈیشل کونسل متعلقہ جج کو ریفرنس کی کاپی اس وقت فراہم کرسکتی ہے جب کونسل جج کے خلاف مزید کارروائی کرنا چاہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے صدارتی ریفرنس چیلنج کردیا

فیصلے میں کہا گیا کہ اس جواب پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس مقصد کے لیے صدرِ مملکت کو خط لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا اور پوچھا کہ ایسا خط چیف جسٹس یا رجسٹرار کے ذریعے لکھا جائے یا وہ ذاتی طور پر صدر کو خط لکھیں، اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ انہوں نے کبھی بھی ایسا کوئی خط نہیں لکھا لہذا وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس حوالے سے کوئی ہدایت نہ دے سکے، تاہم چیف جسٹس نے مزید کہا تھا کہ ایسا خط لکھنے سے چیزیں غیرضروری طور پر پیچیدہ ہوجائیں گی۔

اس حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے میں کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر کو لکھے گئے تینوں خطوط میں واضح طور پر کہا گیا کہ خطوط لکھنے تک وہ نہیں جانتے تھے کہ صدرِ مملکت نے ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا ہے یا نہیں اور وہ ریفرنس کے متن اور اس میں عائد الزامات سے لاعلم تھے‘۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ’ چیف جسٹس پاکستان سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مذکورہ ملاقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدرِ مملکت کو خطوط لکھنے سے قبل وہ نہ صرف ریفرنس دائر کیے جانے سے آگاہ تھے بلکہ اس کے اصل متن اور اس میں عائد الزامات سے بھی آگاہ تھے‘۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنسز

واضح رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو 2 ریفرنسز میں شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں جج صاحبان پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزمات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیداد ظاہر نہ کرنے کے صدارتی ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ججز کے خلاف حکومتی ریفرنس پر جسٹس فائز عیسیٰ کا صدر مملکت کو خط

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

صدر مملکت کو اپنے دوسرے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ انہوں نے لندن میں موجود جائیدادوں سے متعلق کچھ نہیں چھپایا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 8 صفحات پر مشتمل خط میں اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر مملکت اپنے اختیارات کے تحت اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آئین کی پیروی کی جائے۔

لندن میں 3 جائیدادیں رکھنے کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا کہ وہ خود پر اور اپنے خاندان کے خلاف تحقیقات کے طریقے پر صبر کرلیں لیکن کیا یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کا مرتکب نہیں ہورہا۔

خط میں انہوں نے کہا تھا کہ جج ایسا کچھ ہونے کی اجازت نہیں دیتے اور اپنے آئینی حلف کے مطابق وہ آئین کی حفاظت اور اس کا دفاع کرتے۔