دنیا

مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ نظر بند

نظر بند کردیا گیا ہے اور اسی طرح کا طرز عمل دیگر رہنماؤں کے ساتھ بھی جاری ہے، سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ

بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں کرفیو کے طرز پر نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کرتے ہوئے دو سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو نظر بند کردیا گیا۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق عمر عبداللہ نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ انہیں نظر بند کردیا گیا ہے اور اسی طرح کا طرز عمل دیگر رہنماؤں کے ساتھ بھی جاری ہے۔

انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ مجھے رات کے دوسرے پہر سے گھر پر نظر بند کردیا گیا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دیگر رہنماؤں کو بھی نظر بند کرنے کا عمل جاری ہے، حقیقت کے بارے میں معلوم نہیں لیکن اگر ایسا ہے تو پھر ملاقات ہوگی، اللہ ہماری حفاظت کرے‘۔

بعدازاں انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ ’برائے مہربانی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کریں اور اطمینان رکھیں‘۔

عمر عبداللہ کے ٹوئٹ کے چند لمحات کے بعد ہی جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'اطلاعات ہیں کہ انٹرنیٹ سروس سمیت موبائل سروس کو معطل کیا جارہا ہے کرفیو کے احکامات بھی جاری ہورہے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ ’خدا جانتا ہے کہ اگلہ دن کیسا ہوگا، یہ ایک طویل رات ثابت ہورہی ہے‘۔

محبوبہ مفتی نے مزید کہا کہ 'کتنی عجیب بات ہے کہ ہم جیسے منتخب نمائندے، جو امن کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں، گھر پر نظر بند کردیے گے، دنیا دیکھ رہی ہے کہ جموں و کشمیر میں لوگوں کی آواز بند کی جارہی ہے'۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ 'یہ وہی جموں و کشمیر ہے جس نے جمہوری سیکولر بھارت کا انتخاب کیا لیکن آج ناقابل فہم حد تک ظلم و ستم برداشت کررہا ہے، جاگو بھارت'۔

دوسری جانب ایک بھارتی صحافی نے ٹوئٹ کیا کہ یہ مسئلہ نہیں کہ جموں وکشمیر سے متعلق کیا فیصلہ ہوگا لیکن منتخب نمائندوں کو ان کے گھر پر نظر بند کرنے کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔

انہوں نے کہا کہ دفعہ 144 لگا دی گئی، جس کے تحت ریلی اور اجلاس پر پابندی ہوگی لیکن انہیں اعتماد میں کیوں نہیں لیا جاتا‘۔

کشمیری صحافی غلام جیلانی نے نئی دہلی سے اپیل کی کہ اگر آپ میں تھوڑی بھی اخلاقیات ہے تو برائے مہربانی کشمیر میں پاگل پن کا مظاہرہ بند کریں۔

خیال رہے کہ ایک روز قبل دی ہندو میں رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ بھارت کی جانب سے سیکیورٹی فورسز کی اضافی نفری شہری علاقوں میں تعینات کردی گئی ہے اور تمام تھانوں کو الرٹ رہنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔

فون اور انٹرنیٹ سروس معطل

دوسری جانب پوری وادی میں قابض انتظامیہ نے فون اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی، جس سے اس خوف میں اضافہ ہورہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کشمیریوں کے خصوصی حقوق کو کمزور کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

بھارتی انتظامیہ نے سری نگر میں تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیئے ہیں۔

بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، جس کی گزشتہ سال مقامی جماعت سے اتحاد ختم کرنے کے بعد کشمیر میں بھی حکومت ہے، تمام معاملے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

وفاقی کابینہ کے اراکین پیر کو نریندر مودی کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کریں گے جس میں مقبوضہ وادی کی صوررتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا جبکہ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے کشمیر کی صورتحال پر پارلیمنٹ میں بیان جاری کیے جانے کا امکان ہے۔