پاکستان

کراچی: 2 روز کے دوران کتے کے کاٹنے کے درجنوں واقعات

بھارت سے درآمد شدہ ویکسین پر انحصار کے سبب سرکاری ہسپتالوں میں ذخیرہ شدہ ویکسین ختم ہوجانے کا خدشہ پیدا ہوگیا، رپورٹ

کراچی: شہر کے متعدد ہسپتالوں میں گزشتہ 2 روز کے دوران سگ گزیدگی (کتے کے کاٹنے) سے متاثر ہونے والے درجنوں افراد علاج کے لیے لائے گئے۔

خیال رہے کہ سگ گزیدگی کے علاج کے لیے ویکسین بھارت سے درآمد کی جاتی ہے جس نے اس کی فروخت روک دی ہے، تاہم ویکسین کی دستیابی یقینی بنانے کے حکومتی دعوے کے ساتھ کتے کے کاٹنے کے واقعات میں خاصہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چونکہ پاکستان بڑی حد تک بھارت سے خریدی گئی ویکسین پر انحصار کرتا ہے، لہٰذا سرکاری ہسپتالوں میں ذخیرہ کردہ ویکسین جلد ختم ہوجانے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سگ گزیدگی روکنا آسان لیکن اختتام خوفناک - یہ حکومتی ریڈار پر کیوں نہیں؟

بھارت میں سگ گزیدگی کے علاج کی ویکسین کی پیداوار اس کی ایک ارب سے زائد آبادی کے لیے خود بھی ناکافی ہے جس کے سبب پڑوسی ملک نے اس کی فروخت روک دی ہے۔

اس ضمن میں ایک ماہرِ صحت نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’مستقبل میں کتے کے کاٹنے سے متاثر ہونے والے شخص کو حفاظتی ٹیکا لگانا نہایت دشوار ہوجائے گا کیونکہ بھارت نے اپنی پالیسی تبدیل کرلی ہے اور ہمارے ہاں کتوں کی آبادی بڑھنے کے سبب اس قسم کی واقعات کو روکنے کے لیے کوئی حکمتِ عملی نہیں‘۔

جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے کہا کہ گزشتہ دو روز کے دوران سگ گزیدگی کے واقعات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جس کے باعث ہسپتالوں میں متاثرہ افراد کی بڑی تعداد لائی گئی۔

مزید پڑھیں: اگر کتا کاٹ لے تو انفیکشن سے بچنے کیلئے کیا کریں؟

انہوں نے بتایا کہ صرف ماڈل کالونی کے علاقے سے ہمارے پاس 7 مریض لائے گئے جنہیں ایک ہی کتے نے کاٹا تھا جو اب تک آزاد گھوم رہا ہے، یہ خاصی تشویشناک صورتحال ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہسپتالوں میں زیادہ تر ان لوگوں کو حفاظتی ٹیکا لگایا جاتا ہے جنہیں کتے نے کاٹا ہوتا ہے جبکہ کتوں کی تربیت کرنے والے ویکسینیشن کے لیے ہسپتال آتے ہیں۔

ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ 'ریبیز' ایک مہلک بیماری ہے جو ریبیز سے متاثرہ جانور، جو زیادہ تر کتے ہوتے ہیں، کے کاٹنے سے انسان میں منتقل ہوتی ہے جسے صرف ویکسین کے ذریعے ہی روکا جاسکتا ہے اور اگر اس انفیکشن کے اثرات پوری طرح نمایاں ہوجائیں تو یہ مرض لاعلاج ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اگر کتا حملہ کردے تو آپ کو کیا کرنا چاہئے؟

اس ضمن میں وزیر بلدیات سعید غنی کا کہنا تھا کہ پہلے کتوں کو ہلاک کیا جاتا تھا جس پر شدید تنقید کے بعد اب جانور کو جراثیم سے پاک کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ضلعی میونسپل کارپوریشنز کی ذمہ داری ہے کہ آوارہ کتوں کے خلاف مہم شروع کرے۔