رواں سال کی پہلی ششماہی کے دوران ہواوے نے 11 کروڑ 80 لاکھ اسمارٹ فونز استعمال کیے، جو کہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 24 فیصد زیادہ تھے، اگرچہ پہلی سہ ماہی کے دوران کمپنی نے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا مگر مجموعی طور پر 6 ماہ کے دوران اس کی مجموعی فروخت کی شرح میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 55 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
ہواوے کے چیئرمین لیانگ ہوا کی جانب سے بیان کے مطابق آمدنی میں مئی تک بہت تیزی سے اضافہ ہوا، جس سے ہمیں پہلی ششماہی کے لیے بہتر نشوونما کی بنیاد رکھنے میں مدد ملی، یہی وجہ ہے کہ بلیک لسٹ کیے جانے بعد بھی کمپنی کی آمدنی میں اضافے کی توقع رکھتے ہیں، ایسا نہیں کہ ہمیں ااگے مشکلات کا سامنا نہیں ہوگا، یقیناً ہوگا اور اس سے مختصر مدت کے لیے نشوونما کی رفتار پر اثر پڑسکتا ہے، مگر ہم درست سمت کی جانب گامزن ہیں۔
ہواوے نے پہلی بار اپریل سے جون تک کی سہ ماہی کے نتائج جاری کیے ہیں، ایسا پہلے کبھی نہیں کیا گیا، جس کی ممکنہ وجہ امریکی پابندیوں پر پریشان صارفین کے تحفظات کو دور کرنا ہوسکتی ہے۔
ہواوے کی مصنوعات کی سب سے زیادہ فروخت چین میں ہوئی، جہاں اپریل سے جون کے درمیان 3 کروڑ 73 لاکھ سے زائد اسمارٹ فونز فروخت ہوئے اور مجموعی طور پر مارکیٹ شیئر 38 فیصد تک پہنچ گیا، یہ اس وقت ہوا ہے جب چینی مارکیٹ میں 6 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔
ہواوے کے مقابلے میں شیاﺅمی، اوپو، ویوو اور ایپل کی فروخت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔
خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ہواوے کو رواں سال مئی میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بلیک لسٹ کیا تھا جس کے لیے کمپنی کے چینی حکومت سے مبینہ روابط کو بنیاد بنایا گیا تھا۔
تاہم اب امریکی حکومت نے پابندیوں میں نرمی کا عندیہ دیتے ہوئے امریکی کمپنیوں کو ہواوے سے کاروبار کے لیے لائسنس کے اجرا کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس حوالے سے جولائی میں ایک انٹرویو کے دوران یاہو فنانس سے انٹرویو میں ہواوے کے بانی رین زینگ فائی نے امریکی حکومت کی پابندیوں سے نمٹنے کے لیے کمپنی کے منصوبوں کے ساتھ دیگر چیزوں پر بات کی۔
انہوں نے بتایا کہ امریکا کی جانب سے جب بلیک لسٹ کیا گیا تو ہواوے اس کے لیے مکمل تیار نہیں تھی اور پابندی کے بعد پہلے 2 ہفتوں میں اسمارٹ فونز کی فروخت میں 40 فیصد کمی آئی، جس کی وجہ آپریٹنگ سسٹم کے حوالے سے خدشات تھے۔