پاکستان

آف شور ٹیکس بچانے پر اب جیل، جرمانے کا سامنا کرنا ہوگا

آف شور اثاثے ظاہر کرنے میں ناکام رہنے یا غلط معلومات فراہم کرنے پر 3 سال قید، 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے، رپورٹ

اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے کہا ہے کہ آف شور اکاؤنٹس کے ذریعے ٹیکس بچانا قابلِ سزا جرم سمجھا جائے گا اور جو اس میں مجرم پایا گیا تو اسے بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا یا پھر 3 سال تک جیل کی سزا کاٹنی پڑے گی۔

فنانس ایکٹ 2019 کے ذریعے متعارف کروائی گئی ترامیم کے مطابق جاری کیے گئے سرکلر میں کہا گیا کہ یہ ترامیم آف شور ٹیکس بچانے والے نادہندگان کے گرد گھیرا تنگ کریں گی۔

یہ ترامیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی تجاویز کی روشنی میں سامنے آئی ہیں۔

ان ترامیم کے ذریعے بدعنوانیوں اور ریئل اسٹیٹ ٹرانزیکشنز میں ملوث ٹیکس نادہندگان، مفرور افراد، معاونت کار، عہدیدار اور افراد سے متعلق قانونی فریم ورک گورننس کے لیے مختلف تبدیلیاں متعارف کروائی گئی ہیں۔

مزید پڑھیں: حکومت کا 'آف شور' ٹیکس بچانے والوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ

حکومت کی جانب ایک لاکھ روپے یا غیر ظاہر شدہ آف شور اثاثوں سمیت ٹیکس بچانے کی 200 فیصد برابر رقم جرمانہ رکھا ہے۔

اس کے علاوہ کوئی شخص جو انکم ٹیکس کمشنر کو آف شور اثاثے ظاہر کرنے میں ناکام رہتا ہے یا آفشور اثاثوں کی غلط تفصیلات اور ان وجوہات کو چھپاتا ہے جس سے آمدنی پر اثر پڑتا ہے یا ایک کروڑ یا اس سے زائد کی تفصیلات ظاہر کرتا ہے تو یہ قابل سزا جرم ہے جس کی سزا 3 سال قید یا 5 لاکھ روپے تک جرمانہ یا پھر دونوں ہوسکتی ہیں۔

ایف بی آر کی جانب سے 'آف شور نادہندگان' کی اصطلاع کی بھی وضاحت کی گئی جس کے مطابق وہ ایسے اشخاص ہوسکتے ہیں جو ایک آف شور اثاثے کا مالک، حامل، کنٹرول رکھنے والا یا بینیفشل مالک ہو اور وہ اسے ظاہر نہ کریں یا انکم ٹیکس کمشنر کو ایسے اثاثے کی صحیح تفصیلات فراہم نہ کریں۔

کمشنروں کو یہ اختیار ہے کہ آف شور دائرہ کار کے تحت موصول معلومات کی بنیاد پر ان افراد کے مقامی اثاثے منجمد کریں، جنہیں وہ ایک فلائٹ رسک کے طور پر تصور کرتے ہیں یا جرمانے سے بچنے کے لیے اپنے ان اثاثوں کو ضائع کرسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایسے افراد جو جرائم پیشہ افراد کو ڈیزائن، بندوبست کرنے یا لین دین کے معاملے کا انتظام کرنے کے لیے مشورہ دیں یا معاونت کریں، جس کا نتیجہ آف شور ٹیکس بچانے کی صورت میں نکلے تو انہیں بھی 7 سال تک جیل یا 50 لاکھ روپے جرمانہ یا پھر دونوں سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ترامیم میں 50 لاکھ روپے سے زائد مارکیٹ ویلیو رکھنے والی غیر منقولہ جائیداد یا کوئی بھی ایسا اثاثہ جس کی مارکیٹ ویلیو بینک کے کراسڈ چیک کے ذریعے یا کراسڈ ڈیمانڈ ڈرافٹ یا کراسڈ پے آرڈر یا کسی بھی دوسری کراسڈ بینکنگ کی سہولت جو ایک اکاؤنٹ سے دوسرے میں رقم کی منتقلی کو ظاہر کرے، جس کے ذریعے اس کی مالیت 10 لاکھ سے زائد ہو، اس طرح کے تمام معاملات کو محدود کرنے کے لیے ایک نیا سیکشن شامل کیا گیا ہے۔

کوئی بھی شخص 50 لاکھ سے زائد مارکیٹ ویلیو رکھنے والی غیر منقولہ جائیداد کو نقد یا بیئرر چیک کے ذریعے خریدتا ہے تو اسے ایف بی آر کی جانب سے مقرر کی گئی جائیداد کی قیمت کا 5 فیصد جرمانے کے طور پر ادا کرنا ہوگا۔

اسی طرح ایسا شخص جو مقررہ تاریخ یا بڑھائی گئی مدت میں اپنی آمدنی کے ریٹرن فائل کرنے میں ناکام ہوتا ہے اسے متحرک ٹیکس دہندگان کی فہرست (اے ایل ٹی) میں شامل نہیں کیا جاتا ہے تاہم اب ایسے لوگوں کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جاتا ہے اور وہ مقررہ تاریخ کے بعد سرچارج کی ادائیگی کرکے ریٹرن فائل کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ پر سزا میں اضافے کا بل قائمہ کمیٹی نے منظور کرلیا

ایسے افراد کو سرچارچ کی مد میں کمپنی کے معاملے میں 20 ہزار روپے، اے او پی کے کیس میں 10 ہزار روپے اور ایک فرد کے طور پر ایک ہزار روپے دینے ہوں گے۔

فنانس ایکٹ 2019 کے ذریعے نان فائلر کے تصور کو ختم کرتے ہوئے اے ٹی ایل میں شامل نہ ہونے والے افراد سے متعلق نیا تصور متعارف کروایا گیا ہے، ایسے افراد جن کا نام اس فہرست میں نہیں شامل ہوتا ان پر ٹیکس کی شرح میں 100 فیصد مشروط اضافہ ہوگا۔

تاہم ایک ودہولڈنگ ایجنٹ کی رائے کے مطابق 100 فیصد اضافہ اس بنیاد پر وصول کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس شخص کو ریٹرن فائل کرنا ضروری نہیں تھا، اس سلسلے میں ودہولڈنگ ایجنٹ کمشنر کو نوٹس پیش کریں گے۔


یہ خبر 31 جولائی 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی