سنکیانگ کے کیمپوں میں موجود اکثر افراد کو واپس بھیج دیا، چین
چین کے صوبے سنکیانگ کے نائب چیئرمین کا کہنا ہے کہ حراستی کیمپوں میں قید اکثر افراد کو گھر واپس بھیج دیا گیا ہے لیکن انہوں نے حالیہ چند سالوں سے ان کیمپوں میں قید افراد کی تعداد بتانے سے انکار کردیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق چین کے صوبے سنکیانگ کے وائس چیئرمین الکین تیونیاز نے بیجنگ میں بریفنگ کے دوران حراستی مراکز میں موجود افراد کی تعداد سے متعلق کہا کہ ’مراکز سے واپس بھیجے گئے ان افراد کی تعداد کافی زیادہ ہے جن میں سے اکثر روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’تربیت حاصل کرنے والے اکثر افراد اپنے معاشرے اور اپنے گھر واپس پہنچ چکے ہیں‘۔
مزید پڑھیں: چین میں یوغور مسلمانوں کو قید کیے جانے پر اقوام متحدہ کا اظہار تشویش
انہوں نے کہا کہ ’کچھ ممالک اور میڈیا کے مذموم مقاصد ہیں جو صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح بتارہے ہیں اور چین کے تربیتی مراکز پر بہتان لگارہے ہیں‘۔
چین نے سنکیانگ کے کیمپوں میں بھیجے جانے والے افراد سے متعلق تفصیلی اعداد و شمار جاری نہیں کیے، جبکہ حکام نے آزادانہ تحقیقات کرنے والے افراد کے لیے رسائی محدود کی ہوئی ہے۔
تاہم محققین حکومت کی دستاویزات اور حراستی مراکز کی سیٹلائٹ تصاویر سے ان حراستی کیمپوں میں موجود افراد کی تعداد کا اندازہ لگاتے ہیں۔
ایک طرف مغربی ممالک چین میں حراستی کیمپوں پر سخت تنقید کرتے ہیں تو دوسری طرف چین اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے انہیں تشدد کا شکار علاقے میں 'تربیتی مراکز' قرار دیتا ہے۔
چینی حکام نے صحافیوں اور سفارتکاروں کے لیے کچھ مراکز کے دوروں کا اہتمام بھی کیا ہے جہاں سے متعلق حکومت کا کہنا ہے کہ ان مراکز میں موجود افراد کو تمام حقوق حاصل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے میں مزید چند افراد کو ان مراکز سے واپس بھیج دیا جائے گا۔
تاہم چینی حکومت انسانی اور مذہبی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق تمام الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
خیال رہے کہ رواں ماہ امریکی اسٹیٹ سیکریٹری نے سنکیانگ میں ایغور اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ چین کی جانب سے کیے جانے والے سلوک کو ’اس صدی کا بدنما داغ‘ قرار دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: چین کی حراستی کیمپ سے 2 ہزار قازق اقلیتی شہریوں کو رہا کرنے پر آمادگی
اس کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ، سنکیانگ میں چین کی پالیسیوں کی وجہ سے چینی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ماہرین اور انسانی حقوق کے سرگرم اراکین کا کہنا ہے کہ 10 لاکھ سے زائد ایغور افراد اور دیگر مسلم اقلیتی گروہ چین کے مغربی علاقے میں حراستی کیمپوں میں قید ہیں۔
چین کے جنوبی صوبے سنکیانگ میں مسلم اقلیتی برادری 'ایغور' آباد ہیں جو صوبے کی آبادی کا 45 فیصد ہیں۔
سنکیانگ، سرکاری طور پر چین میں تبت کی طرح خود مختار علاقہ کہلاتا ہے، جہاں سے متعلق ایسی خبریں گردش میں ہیں کہ ایغور سمیت دیگر مسلم اقلیتوں کو سنکیانگ صوبے میں قید کر لیا جاتا ہے۔