پاکستان

جسٹس قاضی فائز کی چیف جسٹس سے اپنے خلاف ثبوت فراہم کرنے کی درخواست

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہی درخواست سپریم جوڈیشل کونسل کی 14 جون کو ہونے والی پہلی سماعت میں بھی کی تھی.

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس پاکستان سے درخواست کی ہے کہ ان کے خلاف ثبوت مہیا کیے جائیں تا کہ اظہارِ وجوہ کے نوٹس کے جواب میں وہ اپنا جواب تیار کرلیں۔

اس کے ساتھ انہوں نے یہ درخواست بھی کی کہ اس سے قبل ان کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں جمع کروائے گئے جوابات منظرِ عام پر لائے جائیں۔

اس پیش رفت سے باخبر ذرائع کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کو لکھے گئے نوٹس میں جسٹس عیسیٰ کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کی معلومات عوام کو ہے لہٰذا ان کے جواب بھی کو بھی منظر عام پر لایا جانا چاہیے

خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہی درخواست سپریم جوڈیشل کونسل کی 14 جون کو ہونے والی پہلی سماعت میں بھی کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم جوڈیشل کونسل کے جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کو اظہار وجوہ کے 2 نوٹسز

14 جون کی سماعت کے بعد جسٹس قاضی فائر عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا کے خلاف صدارتی ریفرنس کی نقول دونوں ججز کو فراہم کر کے ان سے الزامات پر جواب طلب کیا تھا۔

تاہم اس وقت کسی بھی جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے اظہارِ وجوہ کا نوٹس نہیں جاری کیا گیا تھا۔

بعد ازاں 12 جولائی کو ہونے والی سماعت کے بعد ریفرنس کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اظہارِ وجوہ کے 2 نوٹسز جاری کیے گئے تھے جس میں ان پر برطانیہ میں اہلیہا ور بچوں کے نام پر جائیداد رکھنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

ان کو جاری کیا گا دوسرا شو کاز نوٹس صدر عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا۔

مزید پڑھیں: لندن جائیدادوں سے متعلق کچھ نہیں چھپایا، جسٹس قاضی فائز عیسٰی

جسٹس قاضی فائز کو اظہارِ وجوہ کے نوٹسز 17 جولائی کو موصول ہوئے تھے جس میں انہیں نوٹسز پر 15 دن میں جواب دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔

یاد رہے کہ صدر کو ارسال کیے گئے اپنے دوسرے خط میں جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا تھا کہ آیا وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنے ٹیکس ریٹرنز میں اپنی بیویوں اور بچوں کی ملکیت میں موجود جائیدادوں کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگر وزیراعظم نے خود ایسا نہیں کیا تھا تو انہیں صدر کو ریفرنس دائر کرنے کی تجویز نہیں دینی چاہیے تھی۔

اپنے خط میں انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا تھا کہ کونسل کی جانب سے کوئی نوٹس جاری ہونے سے قبل ہی منصفانہ سماعت کے اصولوں اور ججز کو حاصل آئینی تحفظ کی خلاف ورزی کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں؛ ‘ججز کے خلاف ریفرنس کیلئے برطانیہ سے دستاویزات حاصل کی گئیں‘

انہوں نے شکوہ کیا تھا کہ حکومت کے ارکان کی جانب سے آدھے ادھورے سچ کو بنیاد بنا کر انہیں اور ان کے خاندان کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ انتہائی پریشان کن ہے۔

خط میں کہا گیا تھا کہ اگر مقصد نجی زندگیوں میں مداخلت کرنا اور رازداری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سازش کرنا ہے تو پورے سچ کو کیوں چھپایا گیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے تفتیش کرنے والے لازمی طور پر جانتے ہوں گے کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کے دونوں بچوں نے لندن میں کام کیا اور حکومتی افراد کی جانب سے 3 جائیدادوں کی جس تفصیل کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا وہاں وہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جائیدادیں ان کے نام پر ہیں جو اس کے مالک ہیں اور ملکیت چھپانے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی، جائیدادیں کسی ٹرسٹ کے ماتحت نہیں نہ ہی کبھی کوئی آف شور کمپنی قائم کی گئی۔

مزید پڑھیں: ججز کے خلاف حکومتی ریفرنس پر جسٹس فائز عیسیٰ کا صدر مملکت کو خط

خط میں کہا گیا تھا کہ جج پر اپنے فنانسز / فنانشلز ظاہر کرنا لازمی نہیں لیکن انہوں نے رضاکارانہ طور پر ایسا کیا کیونکہ ان کی دیانت داری پر شک ظاہر کیا گیا۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے ٹیکس نظام کے تابعدار ہیں اور کبھی بھی ان کی جائیدادوں یا اہلیہ اور بچوں سے متعلق کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔

خط میں کہا گیا کہ جب سے انہوں نے یہ پیشہ اختیار کیا وہ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں، ان کے خلاف انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی کوئی شکایت موجود نہیں نہ ہی ان کے خلاف انکم ٹیکس کی کوئی کارروائی جاری ہے۔