پاکستان

کراچی سمیت 20 شہروں میں جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ

ایف بی آر نے مختلف کٹیگریز کی بنیاد پر غیر منقولہ جائیدادوں کی مالیت پر نظر ثانی کی، جس کا اطلاق 24 جولائی سے ہوگا۔

کراچی: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے وفاقی و صوبائی دارالحکومتوں اور گوادر سمیت 20 شہروں میں جائیدادوں کے ٹیکس کے لیے قیمتوں کے طریقہ کار میں تبدیلی کردی۔

ہر شہر کے لیے ایف بی آر نے علیحدہ نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں مختلف کٹیگریز کی بنیاد پر غیر منقولہ جائیدادوں کی مالیت پر نظر ثانی کرنے کا اعلان کیا گیا جس کا اطلاق 24 جولائی سے ہوگا۔

گزشتہ 5 ماہ کے عرصے کے دوران یہ دوسرا موقع ہے جب ٹیکس حکام نے مارکیٹ ریٹ پر لانے کے لیے جائیدادوں کی قیمتوں کے تعین پر نظرِ ثانی کی۔

اس سے قبل فروری میں ایف بی آر نے رہائشی/کمرشل/صنعتی املاک کی قیمتوں پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے ان میں ڈپٹی کمشنر کی قیمتوں سے اضافہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی سمیت 20 شہروں میں جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ

حالیہ اضافے سے ایف بی آر کی قیمتوں کی شرح مارکیٹ ویلیو کے قریباً 80 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ صرف چند سال قبل سرکاری ڈپٹی کمشنر (ڈی سی ) ریٹ مارکیٹ ویلیو کے 10 فیصد تھے۔

اس نئے نوٹیفکیشن کے تحت کراچی، لاہور، اسلام آباد، گوادر، ایبٹ آباد، بہاولپور، فیصل آباد، گجرات، حیدرآباد، جھنگ، جہلم، ملتان، پشاور، کوئٹہ، راوالپنڈی، ساہیوال، سرگودھا، گوجرانوالہ اور سکھر کی رہائشی و کمرشل املاک کی قیمتوں پر نظر ثانی کی گئی۔

نئی شرح کے مطابق کراچی میں رہائشی پلاٹس (تعمیر اور غیر تعمیر شدہ) کی مالیت میں کم از کم 8 فیصد سے لے کر 44 فیصد تک کا اضافہ ہوگیا ہے۔

مزید پڑھیں: جائیداد کی قیمتوں کا تعین اسٹیٹ بینک نہیں ایف بی آر کرے گا

ایف بی آر کے نوٹیفیکیشن کے مطابق کراچی میں کیٹگری اے ون کے لیے پلاٹ کی قیمت 65 ہزار روپے فی مربع گز، کیٹگری 1 کے لیے 40 ہزار، کیٹیگری 2 کے لیے 19 ہزار، کیٹیگری 3 کے لیے 10 ہزار، کیٹگری 4 کے لیے 8 ہزار 500، کیٹیگری 5 کے لیے 3 ہزار، کیٹیگری 6 کے لیے 15 سو، کیٹیگری 7 کے لیے 32 ہزار، کیٹیگری 8 کے لیے 9 ہزار، کیٹیگری 9 کے لیے 10 ہزار اور کیٹیگری 10 کے لیے 11ہزار 200 روپے فی مربع گز مقرر کردی گئی۔

اسی طرح کراچی میں مکان کی قیمت کیٹیگری اے ون کے لیے 72 ہزار فی مربع گز، کیٹیگری 1 کے لیے 50 ہزار، کیٹیگری 2 کے لیے 28 ہزار، کیٹیگری 3 کے لیے 15 ہزار، کیٹیگری 4 کے لیے ایک ہزار، کیٹیگری 5 کے لیے 6 ہزار، کیٹیگری 6 کے لیے 4 ہزار 500، کیٹیگری 7 کے لیے 40 ہزار، کیٹیگری 8 کے لیے 14 ہزار، کیٹیگری 9 کے لیے 12 ہزار اور کیٹیگری 10 کے لیے 13 ہزار روپے فی مربع گز مقرر کردی گئی۔

کراچی کی اے ون کیٹگری میں عسکری 1 سے 5، باتھ آئی لینڈ، سول لائنز، کلفٹن کوارٹرز (شیریں جناح کالونی کے علاوہ)، ڈی ایچ اے فیز 1 سے 8، دھوراجی کووآپریٹو سوسائٹی، گارڈن ایسٹ کوارٹرز، گلشن اقبال بلاک 17، کے ڈی اے آفیسر ہاؤسنگ سوسائٹی، کے ڈی اے اسکیم 1 اور اے ون، کراچی ایڈمنسٹریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی، کے سی ایچ ایس، محمد علی سوسائٹی، پی ای سی ایچ ایس، سندھی مسلم سوسائٹی، اپر گزری شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: رئیل اسٹیٹ میں وسیع پیمانے پر تبدیلیوں کے امکانات

اسی طرح سپر ہائی وے پر قائم بحریہ ٹاؤن کو کیٹیگری 10 جبکہ ڈی ایچ اے سٹی کو کیٹیگری 9 میں رکھا گیا ہے۔

اس ضمن میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) کے چیئرمین محمد حسن بخشی نے ڈان کو بتایا کہ مالیت کا نیا ٹیبل کچھ حد تک حوصلہ افزا ہے لیکن اس میں بہتری کی گنجائش ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کے کچھ علاقوں میں جائیداد کی مالیت مارکیٹ ویلیو سے بھی آگے نکل چکی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ علاقوں کی کیٹگری غلط کی گئی ہے مثلاً باتھ آئی لینڈ کے کمرشل علاقے کو کیٹگری 1 میں رکھا گیا ہے جبکہ ہمارے خیال میں اسے کٹیگری اے-1 میں ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حیدرآباد کے لیے قیمتوں کی شرح غیر منصفانہ ہے، ایف بی آر کو اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے جبکہ ایف بی آر نے نوٹفکیشن کے اجرا سے قبل ہمیں اعتماد میں بھی نہیں لیا۔

مزید پڑھیں: کراچی،اسلام آباد میں جائیداد کی نئی قیمتیں مقرر

چیئرمین آباد کا کہنا تھا کہ ہمیں امید کے کہ چیئرمین ایف بی آر شبر حسین زیدی ہماری شکایات دور کرنے کے لیے ہمیں وقت دیں گے۔

دوسری جانب ریئل اسٹیٹ ایجنٹس کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں اعتماد قائم کرنے کے لیے مزید کام کرنا باقی ہے۔

جائیدادوں کی خریدد و فروخت سے منسلک معاذ لیاقت کا کہنا تھا کہ ’نئی قیمتوں کا اطلاق بدھ سے ہوگا تاہم اس کے اثرات سمجھنے میں ایک سے 2 ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سپر ہائی وے کے ساتھ ڈی ایچ اے سٹی کے پلاٹ کی مارکیٹ ویلیو ایف بی آر کی قیمتوں سے کہیں کم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں میں 70 فیصد اضافہ

انہوں نے کہا کہ اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم کے بعد لوگوں کے پاس پیسہ موجود ہے اور اس کے بہاؤ میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن اس طرح کی چیزوں کو پہلے درست کیا جانا چاہیے تھا۔


یہ خبر 24 جولائی 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔