پاکستان

نیب کا شہباز شریف کے اثاثے منجمد کرنے کا فیصلہ

نیب حکام نے شہباز شریف کی لاہور میں 96 ایچ کے بعد 2 مزید جائیدادوں اور گاڑیوں کو منجمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ذرائع
|

قومی احتساب بیورو (نیب) نے مختلف ریفرنسز کا سامنا کرنے والے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے اثاثے منجمد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

ذرائع کے مطابق نیب حکام نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی لاہور میں 96 ایچ کے بعد 2 مزید جائیدادوں اور گاڑیوں کو منجمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس کے علاوہ ملکہ کوہسار مری میں بھی شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کی جائیدادوں کو منجمد کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف کی ضمانت منظور، رہائی کا حکم

اسلام آباد میں بھی موجود شہباز شریف کی ایک جائیداد کو منجمد کیا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جائیدادیں منجمد کرنے کے بعد ان کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے عدالت سے اجازت لی جائے گی۔

علاوہ ازیں شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف زیر استعمال لگژری گاڑیوں کو بھی منجمد کرکے تحویل میں لینے کی عدالت سے درخواست کی جائے گی۔

واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے رواں سال 14 فروری کو آشیانہ اقبال ہاؤسنگ کیس میں شہباز شریف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم جاری کیا تھا۔

شہباز شریف کو 5 اکتوبر 2018 کو نیب لاہور نے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ کیس میں حراست میں لیا تھا۔

شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد نیب کے بیان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کا کنٹریکٹ لطیف اینڈ سنز سے منسوخ کر کے کاسا ڈیولپرز کو دیا جس سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا جس کے لیے مزید تفتیش درکار ہے۔

شہباز شریف کو نیب نے جنوری 2016 میں پہلی مرتبہ طلب کیا تھا، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے چوہدری لطیف اینڈ کمپنی کا ٹھیکہ منسوخ کرنے کے لیے دباؤ کا استعمال کیا اور لاہور کی کاسا کپمنی کو جو پیراگون کی پروکسی کپمنی تھی کو مذکورہ ٹھیکہ دیا۔

شہباز شریف کو احتساب عدالت کی جانب سے گزشتہ سال 6 دسمبر 2018 کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجا گیا تھا۔

قومی احتساب ادارے نے شہباز شریف کو تقریباً 80 روز تک اپنے حراست میں رکھا تھا۔

نیب نے الزام عائد کیا تھا کہ شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر رہتے ہوئے ضلع چنیوٹ کے نکاسی آب کا نظام تعمیر کرنے کی ہدایت دی تھی جس کا استعمال ان کے بیٹوں کی ملکیت میں کمپنی رمضان شوگر ملز نے کرنا تھا۔

نیب کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے لیے قومی خزانے کے 20 کروڑ روپے خرچ کیے گئے تھے۔