پاکستان

مزید 4 نئے کیسز سامنے آنے کے بعد ملک میں پولیو کیسز کی تعداد 41 ہوگئی

خیبر پختونخوا میں 25 کیسز سامنے آئے جس میں ضلع بنوں 16 پولیو کیسز کے ساتھ سب سے خطرناک ضلع قرار دیا جاچکا ہے، رپورٹ
| |

پشاور: ملک میں پولیو کا مرض سنگین صورتحال اختیار کرگیا ہے اور پولیو سے متاثرہ بچوں کی مجموعی تعداد میں مزید 4 بچوں کا اضافہ ہوگیا ہے۔

مزید 4 متاثرہ بچوں میں عمر بھر کے لیے معذور کردینے والی اس بیماری کی تشخیص ہونے کے بعد ملک بھر میں رواں سال کے دوران پولیو سے متاثرہ بچوں کی کل تعداد 41 تک پہنچ گئی ہے۔

ایمرجنسی آپریشن سینٹر خیبر پختونخوا کے مطابق بنوں میں پولیو کے 2 نئے کیس رپورٹ ہونے کے بعد صوبے میں پولیو کیسز کی تعداد 33 تک پہنچ گئی ہے۔

دوسری جانب بلوچستان میں بھی مزید 2 نئے پولیو کیسز کی تشخیص ہوئی ہے جس کے بعد رواں سال کے دوران صوبے میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 2 ہوگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پولیو کے 5 نئے کیسز کے بعد رواں برس متاثرہ بچوں کی تعداد 37 ہوگئی

چمن کے علاقے جانی خیل میں 8 ماہ کے بچے میں پولیو کی تشخیص ہوئی اس کے علاوہ بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں 9 ماہ کے بچے میں بھی پولیو وائرس سامنے آیا۔

خیال رہے کہ ضلع بنوں کو پولیو کے حوالے سے بہت خطرناک ضلع قرار دیا گیا ہے جہاں اب تک پولیو کے 16 بچوں میں پولیو کی تشخیص ہوچکی ہے۔

حالیہ کیسز میں جانی خیل کی رہائشی 12 ماہ کی بچی اور فتح خیل کے رہائشی 30 ماہ کے بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی۔

سال 2019 کے دوران مجموعی طور پر بلوچستان میں پولیو کے 2 کیسز(ضلع کیچ عبداللہ 1، ضلع جعفر آباد1)، پنجاب میں 3 (لاہور3 )سندھ میں 3( کراچی 2 لاڑکانہ 1) کیسز سامنے آچکے ہیں۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا پولیو سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ ہے جہاں 25 کیسز سامنے آئے جس میں سے ضلع بنوں میں 16، ضلع ڈی آئی خان 1، ضلع ہنگو 1، ضلع مروت 1، ضلع شانگلہ 1، ضلع تور گڑھ 5 بچوں میں پولیو کی تشخیص ہوئی۔

مزید پڑھیں: پولیو کیسز میں اضافے کے بعد انسداد پولیو پروگرام میں اصلاحات متعارف

اس کے علاوہ قبائی اضلاع میں رواں برس اب تک 8 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جس میں باجوڑ ایجنسی میں 7، خیبر ایجنسی میں 1، شمالی وزیرستان میں 6 کیسز سامنے آئے یوں ملک میں رواں سال پولیس کیسز کی تعداد 41 تک پہنچ گئی۔

خیال رہے کہ2017 میں پورے سال کے دوران ملک میں پولیو کے 8 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جبکہ سال 2018 میں یہ تعداد 12 تھی۔

پولیو مہم کے خلاف بھونڈے مفروضے

یہ بات مدِ نظر رہے کہ پولیو انتہائی موذی وائرس ہے، جو عام طور پر حفظان صحت کی غیرتسلی بخش صورتحال کے باعث منتقل ہوجاتا ہے، اس وائرس کا کوئی علاج نہیں، جس سے زیادہ تر 5 سال سے کم عمر کے بچے متاثر ہوتے ہیں اور اسے صرف ویکسین کے ذریعے ہی روکا جاسکتا ہے۔

مغرب میں پولیو کا خاتمہ ہوئے طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن پاکستان میں شدت پسندوں کی جانب سے حفاظتی ویکسین پر پابندی، طبّی عملے کو حملوں کا نشانہ بنانے اور اس ویکسین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے پولیو کا مرض ملک میں اب تک موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افواہوں کے بعد پولیو کے قطرے نہ پلانے والوں کی تعداد میں 85 فیصد اضافہ

یاد رہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں جاری انسداد دہشت گردی آپریشنز کے ردعمل کے طور پر طالبان اور دیگر عسکریت پسند متعدد بار پولیو ویکسینیشن سینٹرز سمیت ہیلتھ ورکرز کو نشانہ بنا چکے ہیں، جن کا ماننا ہے کہ پولیو کے قطرے پاکستانی بچوں کو بانجھ بنانے یا خفیہ معلومات اکٹھا کرنے کے لیے مغربی ممالک کا بہانہ ہیں۔

خصوصاً قبائلی علاقوں میں اس پریشان کن رجحان میں مزید اضافہ اُس وقت ہوا جب اس بات کا انکشاف ہوا کہ ابیٹ آباد کے قرب و جوار میں ایک پاکستانی فزیشن ڈاکٹر شکیل آفریدی کی جانب سے چلائی جانے والی ایک جعلی ہیپٹائٹس ویکسین مہم نے ہی امریکا کو مئی 2011 میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو تلاش کرکے ہلاک کرنے میں مدد دی۔