مراد موسیٰ خان، پروفیسر برائے نفسیات، آغا خان یونیورسٹی
جب مجھ سے پہلی مرتبہ رابطہ کیا گیا اور اس منصوبے کے بارے میں واضح کیا گیا، تو مجھ سے اعترافی بیانات کے سیکشن کے لیے میری رائے مانگی گئی، یہ میرے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا کیونکہ میں پاکستان میں 25 سال سے ذہنی امراض کا علاج کر رہا ہوں، میں نے اس ملک میں مرد و عورت، تمام عمر اور تقریباً ہر طبقے کے لوگوں کی ہر طرح کے ذہنی بیماریاں دیکھی ہیں، خودکشی کی کوشش کرنے والے افراد میں مجھے خصوصی دلچسپی ہوتی ہے جبکہ اس حوالے سے میں 20 سال سے تحقیق کر رہا ہوں۔
تھوڑا بہت جو میں جانتا ہوں کہ جس جذباتی جدوجہد کے راستے پر میں چلنے والا تھا اس پر سے کئی پاکستانی بغیر کسی مدد کی امید کے گزر رہے ہیں، کئی افراد کو دماغی امراض کا علاج میسر ہی نہیں ہے، دیگر بدنامی کے خوف سے گھبراتے ہیں اور باقی کی استطاعت ہی نہیں۔
’لوگوں نے اپنے اعترافی بیانات میں جو کہانیاں بیان کی ہیں وہ نہایت اثر انگیز ہیں اور بتاتی ہیں کہ پاکستان جیسے پیچیدہ معاشرے میں عوام کن پریشانیوں سے گزر رہے ہیں‘۔
اعترافی بیانات معاشرے کے زیادہ تر پڑھے لکھے، انگریزی بولنے والے اَپر مڈل کلاس طبقے کے ہیں تاہم ان کی جدو جہد کے بارے میں پڑھنے سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ نچلے طبقے کے لوگ غربت، تعلیم کی کمی، بڑے خاندان، جگہ کی کمی، منشیات کے استعمال، بے روزگاری اور گھریلو تنازعات سے ان کے جذبات پر پڑنے والے اثرات سے کیسے گزر رہے ہوں گے۔
یہاں مذاق اڑانے، جسمانی و جنسی تشدد، ریپ، گھریلو تنازعات کی وجہ سے تشدد، خاندان کا ماحول خراب ہونا، ذہنی امراض، خود کو نقصان پہنچانے اور خودکشی کی کئی کہانیاں ہیں، یہ حیران کن ہے کہ موصول ہونے والے 3 ہزار افراد کے رد عمل میں یا تو خودکشی یا پھر خود کو نقصان پہنچانے کے اقدامات شامل ہیں یا پھر وہ اپنے اہلخانہ یا احباب میں سے کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جس نے خودکشی کی ہو۔
’ان کہانیوں میں زیادہ تر بدنامی کے ڈر سے کسی سے مدد مانگنے میں لوگوں میں ہچکچاہٹ نظر آئی جس کی وجہ سے لوگوں میں تنہائی اور شرمندگی کا احساس تھا‘۔
کہانیاں بتاتی ہیں کہ سماجی و ثقافتی اور مذہبی اقدار کی موجودگی میں ہر طرح کی بیماریاں، ریپ سے دھوکے بازی تک، تشدد سے منشیات کے استعمال تک، ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، کہانیاں بتاتی ہیں کہ صحت کے حوالے سے یا قانون و انصاف کے حوالے سے، تعلیم کی کمی سے، کئی پاکستانیوں کو دماغی امراض میں مبتلا ہونے خدشات کا سامنا ہے جبکہ ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ذہنی امراض کے علاج کا ملک میں فقدان ہے جبکہ غیر تجربہ کار معالجوں اور غیر معیاری تربیت کے ساتھ ساتھ شرمندگی اور ان مسائل کے علاج کے لیے کسی سے مدد مانگنے میں بدنامی کا سوچنا بھی ان مسائل کی وجہ ہیں۔
یہ کہانیاں ہمیں کئی پاکستانیوں کی خود پر قابو رکھنے کی حیرت انگیز صلاحیت کے بارے میں بھی بتاتی ہیں کہ کس طرح انہوں نے زندہ رہنے کے ساتھ ساتھ زندگی میں ترقی حاصل کرنے کے لیے معاشرے کے تمام چیلنجز کا سامنا کیا۔
سالوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں گھر، ٹرانسپورٹ، صحت اور تعلیم، قانون اور انصاف کے حوالے سے سماجی ترقی کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور اس کی وجہ سے عوام میں بڑی تعداد میں ذہنی بیماریاں پیدا ہوئی ہیں جس میں بہت بڑی تعداد میں ذہنی دباؤ بھی شامل ہے، اس طرح کے ذہنی دباؤ کا اثر ہماری سڑکوں، ہمارے گھروں، اور نہایت اقدام جیسے خودکشی اور دہشت گردی میں نظر آتا ہے۔
ہمیں معاشرے کی ان بیماریوں سے نمٹنے کی فوری ضرورت ہے، ہمیں ان مسائل کے بارے میں بات کرنی ہوگی جن میں سماجی مسائل اور ذہنی صحت کی سہولیات جیسے خودکشی سے روکنے کیلئے اداروں کا قیام، شامل ہے، یہ ایک انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔
اس ملک کے لوگوں کی یہ اہم ضرورت ہے۔
ڈاکٹر مراد موسیٰ خان ایم آر سی نفسیات، پی ایچ ڈی آغا خان یونیورسٹی میں پروفیسر اور انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فور سوسائیڈ پری وینشن (عالمی ادارہ برائے خودکشی روک تھام) کے صدر ہیں، وہ ٹوئٹر پر @MuradMKhan کے نام سے ٹویٹ کرتے ہیں۔
خود کشی کی خلا میں نہیں کی جا رہی ہوتی، ایک ’خود کشی کا راستہ‘ ہوتا ہے جسے لوگ اختیار کر رہے ہوتے ہیں، اس راستے پر سفر خودکشی سے کئی ہفتوں یا مہینوں قبل شروع ہوتا ہے۔