شہباز شریف نے مختلف تجاویز پیش کیں—فوٹو: مسلم لیگ (ن)
کانفرنس میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے خطاب کرتے ہوئے ’رہبر کمیٹی‘ کے قیام کی تجویز دی، جو میثاق معیشت اور قومی چارٹر تیار کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ میں موجودہ بجٹ سے زیادہ بدترین بجٹ نہیں دیکھا، حکومت کے ہاتھ روکنے کے لیے اسمبلی کے اندر اور باہر کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
مولانا فضل الرحمٰن کی اجتماعی استعفوں کی تجویز
جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارروائیاں جانبدارانہ ہے، وقت آگیا ہے کہ ہم یک زبان ہو کر فیصلے کریں۔
ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے کانفرنس میں اجتماعی استعفوں کی تجویز دی گئی اور کہا گیا کہ اس پر بھی بحث ہونی چاہیے۔
ذرائع کے مطابق کثیرالجماعتی کانفرنس میں شریک بڑی جماعتوں نے اسمبلیوں سے استعفوں کی تجویز پر تحفظات کا اظہار کیا۔
اے این پی کا چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا مطالبہ
ذرائع نے مزید بتایا کہ کانفرنس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کا معاملہ بھی زیر غور آیا، جس پر اے این پی نے انہیں ہٹانے کی تجویز دی۔
ذرائع کے مطابق اسفندیار ولی نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کو تبدیل کیا جانا چاہیے، اپوزیشن نے یہ اقدام نہ اٹھایا تو عوام اعتماد نہیں کرے گی۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین نے اس حوالے سے کہا کہ اجتماعی استعفوں، چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی، حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک سمیت دیگر امور پر سفارشات مرتب کرنے کے لیے کمیٹی کے قیام کی تجویز سامنے آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کمیٹی میں اے پی سی میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل ہوں گے، جو آئندہ کے لائحہ عمل کا تعین کرےگی۔
اسمبلیوں سے استعفوں پر عدم اتفاق
آل پارٹیز کانفرنس میں ایک مرتبہ پھر اسمبلیوں سے استعفوں پر اتفاق نہ ہوسکا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور پختونخوا میپ نے استعفوں کی حمایت کی۔
اس حوالے سے تجویز کنندگان نے کہا کہ استعفیٰ دینے سے حکومت شدید ترین دباؤ میں آجائے گی۔
ذرائع نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) استعفوں کی فی الوقت حامی نہیں، دونوں جماعتوں کا موقف ہے کہ ہمیں اتنی جلدی حکومت کو مظلوم نہیں بننے دینا چاہیے۔
دونوں جماعتوں نے کہا کہ استعفے ایک آپشن ضرور ہے لیکن یہ آخری آپشن ہونا چاہیے، ہمیں پہلے مرحلے پر ایوان کے اندر اور باہر احتجاج کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
اپوزیشن جماعتوں نے کہا کہ احتجاج اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے جو حکمت عملی مرتب کی جائے گی، اسے قبول کریں گے۔
ذرائع نے کہا کہ حتمی فیصلہ تمام تجاویز کو سامنے رکھتے ہوئے متفقہ اعلامیہ میں شامل کیا جائے گا،
ہماری لڑائی عمران خان سے نہیں انہیں سلیکٹ کرنے والوں سے ہے، مریم نواز
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ایسا اقدام اٹھائیں کہ عمران خان تو جائے لیکن ایسا کوئی شخص پھر نہ آسکے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت بدحالی کا شکار ہے اور عوام ہماری جانب دیکھ رہے ہیں، آج اگر صحیح فیصلے نہیں کیے تو قوم ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
مریم نواز نے کہا کہ ہماری لڑائی عمران خان سے نہیں انہیں سلیکٹ کرنے والوں سے ہے۔
مضبوط فورم تشکیل دے کر فیصلہ کرنا ہوگا، حاصل بزنجو
نیشنل پارٹی کے رہنما حاصل بزنجو نے کہا کہ جب تک اس ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ سے ویلفیئر اسٹیٹ نہیں بنایا جائے گا ملک ترقی نہیں کرسکتا، نیب انہی اداروں کے ماتحت کام کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مضبوط فورم تشکیل دے کر فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔
قبل ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی قیادت میں ان کی جماعت کا وفد کثیرالجماعتی کانفرنس میں شریک ہوگا جبکہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کانفرنس کے لیے 5 رکنی وفد کو نامزد کیا تھا۔
وفد کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ کانفرنس میں شہباز شریف کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کا وفد مریم نواز شریف، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، پارٹی چیئرمین راجا ظفر الحق، سیکریٹری جنرل احسن اقبال اور تمام صوبائی صدور پر مشتمل ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کو بجٹ منظور نہیں کرانے دیں گے، اپوزیشن رہنماؤں کا اتفاق
اسی طرح پیپلزپارٹی کے وفد کی نمائندگی سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی اور نیئر بخاری، شیری رحمٰن اور فرحت اللہ بابر کو دی تھی۔
تاہم پی پی رہنما شیریٰ رحمٰن نے ڈان کو بتایا تھا کہ کانفرنس کے آغاز سے قبل وفد میں تبدیلی ہوسکتی ہے کیونکہ بلاول بھٹو زرداری نے پیپلزپارٹی کا ایک اجلاس طلب کیا، جس میں پارٹی کی حکمت عملی کو حتمی شکل دی جائے گی کہ کس طرح قومی اسمبلی میں بجٹ کو مسترد کیا جائے۔
علاوہ ازیں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جارہا تھا کہ اگر اپوزیشن حکومت مخالف تحریک شروع کرنےمیں سنجیدہ ہے تو اسے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانی چاہیے۔
تاہم پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)، اس مطالبے کو ماننے سے گریزاں نظر آئی تھیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ حتمی فیصلہ کثیر الجماعتی کانفرنس میں کیا جائے گا۔