ہمارے ارد گرد جہاں اتنا کچھ ٹوٹ پھوٹ کا شکا ہو ایسے میں کرکٹ میں کمال کارکردگی کی توقع کرنا کی تُک نہیں بنتی۔ ہاکی اور اسکوائش جیسے کھیلوں میں کبھی ہم عالمی چیمپئن تھے مگر اب تو ان کھیلوں کی رینکنگ میں کہیں نظر ہی نہیں آتے۔ کھیلوں کی وہ تنظیمیں جنہیں کھیلوں کے معیار بُلند کرنا تھے وہ اندرونی لڑائیوں اور دشمنیوں کا شکار بن چکی ہیں۔
پاکستان فٹ بال فیڈریشن کی ہی مثال لیجیے، جس پر درجنوں کی تعداد میں شاہ خرچ غیر ملکی دوروں کروانے کا ایک ذریعہ بن جانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ اس کھیل کے لیے زیادہ کچھ نہیں کیا گا ہے جبکہ کھیل کے معیار کو بڑھانے کے لیے جو فیفا فنڈ دیا گیا اس کے مقابلے میں کام تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ کرکٹ ورلڈ کپ سے کچھ وقت پہلے وزیراعظم کو کرکٹ بورڈ میں کئی تبدیلیاں کرنا کیا لازمی تھیں؟ کیا وہ کامیاب سابق چیئرمین نجم سیٹھی کے ساتھ حساب کتاب برابر کرنے کے لیے تھوڑا انتظار نہیں کرسکتے تھے؟
ایک طرح سے دیکھا جائے تو ملک کو لاحق جتنا مسئلے مسائل ہیں کرکٹ ان کا ایک استعارہ بن چکی ہے۔ اداروں کی آپسی لڑائیاں، مرکزیت پسند طاقت کا رجحان اور تمام لوگوں کے مفاد کو داؤ پر لگا کر ذاتی مفادات کی کوششیں کرنا اب تو جیسے ایک عام ریت بن چکی ہے۔
ایسے ماحول میں ٹیلنٹ کو ابھر کر سامنے آنے کا زیادہ موقع ہی فراہم نہیں ہوپاتا ہے۔ مناسب سہولیات اور کوچنگ کے باعث ہم اوسط درجے کی ٹیم سے آگے بڑھ ہی نہیں پاتے۔ مگر میں ایک بار کہوں گا کہ کرکٹ کی اس موجودہ صورتحال میں ہمیں وہی حالات جھلکتے نظر آتے ہیں جو پی آئی اے سے لے کر ریلوے جیسے دیگر اداروں کو لاحق ہیں۔
ان تمام نکات کو جوڑنے پر ایک تصویر مکمل ہوتی ہے جس میں ان بحرانوں کے بیچ منجھدار میں ایک غرق شدہ بیڑا نظر آتا ہے جو ہمارے نظام تعلیم کا ہے۔ 1970 کی دہائی کی ابتدا میں پیپلزپارٹی کی حکومت کی جانب سے نجی اسکولوں کو قومیائے جانے کے بعد سے اب تک پاکستانیوں کی دو نسلیں ناکام ہوتے ریاستی اداروں سے گریجویشن کرچکی ہے۔ جنرل ضیا کی 'اسلامائزیشن' نے اس بگاڑ کو مزید حوصلہ افزائی بخشی۔
کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ بہتر تعلیم کی کمی نوجوانوں کو کھیلوں سے دور کردیتی ہے۔ دراصل زبردست تعلیمی سرگرمی سے حاصل ہونے والا ذہنی نظم و ضبط ہی اعلیٰ پایہ کے کاموں اور کھیلوں کے لیے لوگ تیار کرتا ہے۔ بس ویرات کوہلی کی خوداعتمادانہ لہجگی کا موازنہ سرفراز احمد کی جھجک سے بھرپور جھجھکتی پریس کانفرنس سے کرلیجیے، آپ کو میری بات سمجھ آجائے گی۔
ہمارا خراب تعلیمی نظام قومی زندگی کے دیگر حصوں پر بھی اسی طرح کے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ مدارس نوجوانوں کو ذاتی اور عوامی سطح پر خوشحالی لانے کے لیے تیاری نہیں کرواتے جبکہ سرکاری نظام کی تعلیم کا تو زیادہ ذکر ہی نہ جائے تو ہی بہتر ہے۔
اس تحریر کو سمیٹتے ہوئے یہ بتانا چاہوں گا کہ میں نے پاکستان کی جیت پر 10 پاؤنڈ کی شرط لگائی تھی۔
یہ مضمون 22 جون 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔