پاکستان

’ججز کے خلاف دائر ریفرنس میں قانونی تقاضے نظر انداز کردیے گئے‘

سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ریفرنس شہزاد اکبر کی ایما پر دائر کیا گیا، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس میں قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بھی نظر انداز کردیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ریفرنس وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کی ایما پر دائر کیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ریفرنس کو وزیراعظم اور صدر کے آفس سے نہیں بلکہ اٹارنی جنرل کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل میں جانا چاہیے تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم جوڈیشل کونسل ریفرنسز پر تبصرہ: پیمرا کا 14 نیوز چینلز کو نوٹس

سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ظاہری طور پر اس کیس میں جو کمی دکھائی دیتی ہے اس میں وزیراعظم کے سوا کابینہ معاملے کا حصہ نہیں ہے۔

انہوں نے باور کروایا کہ پارلیمانی نظام حکومت میں وزیراعظم اکیلے حکومتی معاملات کو نہیں چلا سکتے۔

سابق چیف جسٹس نے آئین کے آرٹیکل 90 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2016 میں مصطفیٰ امپیکس کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت ایک کابینہ ہے جو وزیراعظم اور وفاقی وزرا پر مشتمل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ججز کے خلاف حکومتی ریفرنس پر جسٹس فائز عیسیٰ کا صدر مملکت کو خط

تاہم یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ کیا ریفرنس کابینہ کے سامنے رکھا جائے یا نہ رکھا جائے۔

ایک سینئر وکیل نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ آئین کا آرٹیکل 2019 سپریم جوڈیشل کونسل کے معاملات پر ہے، وہ آرٹیکل 90 کا تابع نہیں ہے کیونکہ اعلیٰ سطح کے معاملات میں فیصلے کے لیے رازداری بہت ضروری ہے۔

ادھر سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ معاملہ کس نوعیت کا تھا، سوال یہ ہے کہ کیا اس معاملے میں آرٹیل 90 کی پیروی کی گئی تھی؟ کیونکہ وزیراعظم کابینہ کی منظوری کے بغیر صدر کو اکیلے ہی سمری بھیجنے کے مجاز نہیں ہیں۔