'یو اے ای میں تخریب کاری کا نشانہ بننے والے 2 جہاز سعودی عرب کے ہیں'
سعودی عرب کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ساحل پر تخریب کاری کا نشانہ بنائے جانے والے 4 جہازوں میں سے 2 تیل بردار جہاز ان کے ہیں، جنہیں حملے میں شدید نقصان پہنچا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق سعودی حکام کا کہنا تھا کہ حملے میں نشانہ بنائے جانے والا تیل بردار جہاز سعودی عرب سے تیل لے کر امریکا جارہا تھا۔
سعودی عرب کے وزیر توانائی خالد الفلاح کی جانب سے مذکورہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب امریکا کی جانب سے کشتی رانی کے شعبے سے منسلک افراد کو حملوں کے حوالے سے خبردار کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز فجیرہ کے ساحلی شہر کی بندرگاہ پر 4 جہازوں میں تخریب کاری کی کوشش پر متحدہ عرب امارات کی جانب سے مذمتی بیان سامنے آیا تھا، تاہم اس سے قبل وہ ساحلی علاقے میں کسی بھی قسم کے حملوں کی تردید کررہے تھے۔
مزید پڑھیں: متحدہ عرب امارات کے ساحل پر 4 جہاز ’تخریب کاری کا نشانہ‘ بنائے گئے، حکام
متحدہ عرب امارات کا مذمتی بیان ایران اور لبنان میڈیا میں بندر گاہ پر دھماکوں کے حوالے سے خبریں نشر کیے جانے کے کچھ گھنٹوں کے بعد سامنے آیا۔
تاہم متحدہ عرب امارات کے حکام نے تخریب کاری کی کوشش اور اس میں ملوث افراد کی نشاندہی کرنے سے انکار کیا تھا۔
واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے خبردار کیا گیا تھا کہ 'ایران یا ان کے پروکسیز' خطے میں جہاز رانی سے متعلق ٹریفک کو نشانہ بنا سکتے ہیں، خیال رہے کہ امریکا نے گذشتہ ہفتے ایران پر نئی معاشی پابندیوں کے فوری بعد مشرق وسطیٰ میں طیارہ بردار جہاز اور بی 52 بمبار طیارے تعینات کیے تھے۔
علاوہ ازیں سعودی عرب کے حکام کے جاری بیان کے فوری بعد ایران کی وزارت خارجہ نے سعودی عرب کے تیل بردار جہاز کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی مزید وضاحت کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
رپورٹ میں ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی 'ارنا' کے حوالے سے بتایا گیا کہ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی کا کہنا تھا کہ واقعے کے حوالے سے مزید تفصیلات فراہم کی جانی چاہیے۔
انہوں نے ساتھ ہی خطے میں امن و امان کی صورت حال اور سیکیورٹی کو متاثر کرنے کے حوالے سے کسی بھی مہم جوئی، سازش اور غیر ملکی مداخلت سے بھی خبردار کیا۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران اور دیگر عالمی اداروں کے ساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے بعد ایران پر پابندی کے دوبارہ نفاذ سے ایرانی معیشت بحران کا شکار ہوگئی ہے جس سے دونوں ممالک میں کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کی طرف سے غیر واضح خطرات: امریکی 'بی 52' بمبار قطر پہنچ گئے
گزشتہ ہفتے ایران نے خبردار کیا تھا کہ اگر عالمی طاقتیں معاہدے کی شرائط پر بات چیت کرنے میں ناکام رہیں تو وہ 60 روز میں بلند ترین سطح پر یورینیئم کی افزائش شروع کردے گا۔
متحدہ عرب امارات کے ساحل پر پیش آنے والے حالیہ واقعے کے حوالے سے سعودی وزیرِ توانائی کا مزید کہنا تھا کہ دونوں تیل بردار جہازوں پر اتوار کی صبح 6 بجے حملہ کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ واقعے میں دونوں تیل بردار جہازوں کو شدید نقصان پہنچا۔
سعودی عرب نے بھی حملہ کی نوعیت اور اس میں ملوث افراد کی نشاندہی نہیں کی۔
علاوہ ازیں 6 عرب ممالک پر مشتمل خلیجی تعاون کی تنظیم (جی سی سی) نے رات دیر گئے جاری کیے گئے اعلامیے میں مذکورہ حملے پر تشویش کا اظہار کیا۔
عبداللطیف بن راشد النہیان کا کہنا تھا کہ 'غیر ذمہ دارانہ کارروائی سے خطے میں کشیدگی اور تنازع میں اضافہ ہوگا اور اس سے لوگوں کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں'۔
اس کے علاوہ مذکورہ تخریب کاری کے حوالے سے بحرین، مصر اور یمن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم کی جانے والی حکومت نے بھی مذمت کی۔
مزید پڑھیں: امریکا نے ایران پر مزید معاشی پابندیاں عائد کردیں
امریکی بحریہ کے پانچویں فلیٹ، جو خطے کی نگرانی کرتا ہے، نے اس واقعے پر فوری طور تبصرہ نہیں کیا اور اماراتی حکام نے بھی جاری تحقیقات کے حوالے سے مزید تفصیلات دینے سے انکار کیا۔
قبل ازیں لبنان کے ایران نواز سیٹیلائنٹ چیننل المایدین نے ’خلیجی ذرائع‘ کے حوالے سے غلط طور پر بتایا تھا کہ فجیرہ بندرگاہ پر سلسلسہ وار دھماکے ہوئے ہیں۔
جس کے بعد ایران کے سرکاری اور نیم سرکاری میڈیا نے المائدین کی یہ رپورٹ خود بھی نشر کی اور بعدازاں اس رپورٹ میں واقعے کے دوران مبینہ طور پر نشانہ بننے والے جہازوں کے نام بھی شامل کرلیے گئے تھے۔
تاہم خبررساں ادارے کے اماراتی حکام اور مقامی عینی شاہدین سے گفتگو کرنے کے بعد بندرگاہ پر دھماکوں کی اطلاع غیر مصدقہ ثابت ہوئی۔
خیال رہے کہ فجیرہ کی بندرگاہ آبنائے ہرمز سے 85 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم ہے جہاں سے دنیا میں تیل کی مجموعی تجارت کا ایک تہائی حصہ گزرتا ہے۔