میانمار: فوج کے مظالم کی تحقیقات کرنے والے صحافی رہا
ینگون: میانمار میں سرکاری خفیہ معلومات کے قانون کی خلاف ورزی میں سزا پانے والے 2 صحافیوں کو ایک سال ساڑھے 4 ماہ قید میں گزارنے کے بعد ینگون کے مضافات میں موجود جیل سے رہا کردیا گیا۔
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اس کے 2 رپورٹرز، 33 سالہ وا لون، اور 29 سالہ کیاوسوئے کو گزشتہ برس ستمبر میں 7 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
مذکورہ مقدمے کے بعد میانمار کے جمہوریت کی جانب سفر پر سوالات اٹھائے گئے تھے اور مختلف سفارت کاروں اور انسانی حقوق کے رضاکاروں کی جانب سے اس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی: حقائق سامنے لانے پر 2 غیر ملکی صحافیوں کو 7 سال قید
واضح رہے کہ ان دونوں صحافیوں کو صدارتی معافی کے بعد رہا کیا گیا جو 6 ہزار 520 قیدیوں کو دی گئی اس سے قبل گزشتہ ماہ بھی میانمار کے صدر نے عام معافی دیتے ہوئے ہزاروں قیدیوں کو رہا کیا تھا۔
خیال رہے کہ میانمار میں حکام کے حوالے سے یہ روایت موجود ہے وہ 17 اپریل کو شروع ہونے والے نئے سال کے بعد ملک بھر کے قیدیوں کو معافی دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ دسمبر 2017 میں اپنی گرفتاری سے قبل یہ دونوں صحافی جنوبی میانمار کی ریاست رخائن میں اگست 2017 کو شروع ہونے والے فوجی کریک ڈاؤن کے دوران سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 10 مسلمان مردوں اور لڑکوں کے قتل کے سلسلے میں تحقیقات کررہے تھے۔
مزید پڑھیں: روہنگیا بحران کی رپورٹنگ پر 2 صحافیوں کو مقدمات کا سامنا
جنہیں دسمبر 2017 میں ینگون میں پولیس کی جانب سے ایک عشائیے میں بلا کر گرفتار کرلیا گیا تھا، بعدازاں جولائی 2018 میں ان دونوں صحافیوں کے خلاف باقاعدہ مقدمات چلانے کے احکامات دیے گئے تھے۔
3 ستمبر کو روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق حقائق سامنے لانے پر ریاستی قوانین توڑنے کے الزام میں 2 غیر ملکی صحافیوں کو 7 سال قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔
اس سے قبل 24 اپریل کو میانمار کی سپریم کورٹ نے برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کے دونوں صحافیوں کی 7 برس قید کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کردی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کی میانمار میں صحافیوں کے خلاف عدالتی فیصلے پر تنقید
خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق میانمار میں نسل کشی کے دوران تقریباً 7 لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان اگست 2017 میانمار سے ہجرت کرکے بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔