بیل آؤٹ پیکج پر جاری مذاکرات کے باعث آئی ایم ایف مشن کے دورے میں تاخیر کا امکان
واشنگٹن: پاکستان کے بیل آؤٹ پیکج کو حتمی شکل دینے کے لیے اسلام آباد آنے والے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے وفد کے دورہ اسلام آباد میں تاخیر کا امکان ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع نے بتایا کہ دونوں فریق مجوزہ مذاکرات پر ایک اہم بات چیت میں مصروف ہیں، جس کی وجہ سے بیل آؤٹ پیکج کو حتمی شکل دینے کے لیے وفد کے اسلام آباد آنے میں تاخیر ہوسکتی ہے۔
اس سے قبل وزیر خزانہ اسد عمر نے رواں ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے گروپ کی موسم بہار کی ملاقات کے بعد مشن جلد ہی اسلام آباد کا دورہ کرے گا، جس کے بعد اسی ماہ کے آخر تک معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے۔
مزید پڑھیں: آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج مئی تک ملنے کا امکان
واضح رہے کہ یہ ملاقاتیں گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں ہوئی تھیں اور اتوار کو اس کا اختتام ہوگیا تھا۔
ان ملاقاتوں میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خزانہ اسد عمر نے کی، جو جمعہ کو نیویارک گئے تھے لیکن ان کی ٹیم میں شامل وزارت داخلہ کے سینئر اور دیگر سرکاری ایجنسیوں کے حکام مزید مذاکرات کے لیے واشنگٹن میں رک گئے تھے۔
بعد ازاں واشنگٹن میں ایک نیوز بریفنگ کے دوران اسد عمر نے کہا تھا کہ دونوں فریق بیل آؤٹ پیکج پر ’کم و بیش معاہدے پر پہنچ گئے‘ ہیں اور ’ہمیں امید ہے کہ ایک یا 2 روز میں مکمل معاہدے پر پہنچ جائیں گے‘۔
تاہم سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ ’دونوں فریق اب بھی مکمل معاہدے کی حتمی تفصیلات پر سخت مذاکرات میں مصروف ہیں، لہٰذا آئی ایم ایف کے مشن کا اپریل کے بجائے مئی میں اسلام آباد کے دورے پر آنے کا امکان زیادہ ہے‘۔
ادھر پاکستان-آئی ایم ایف مذاکرات سے جڑے ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’اسلام آباد کو اب بھی جون سے پہلے معاہدہ مکمل ہونے کی امید ہے کیونکہ اس کا ماننا ہے کہ بیل آؤٹ پیکج بجٹ کے حوالے سے مدد دے گا‘۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف حکام نے پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں، ساتھ ہی پاکستان اور چین دونوں سے تحریری ضمانت مانگی ہے کہ آئی ایم ایف کی امداد چین کے قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔
مذکورہ ذرائع نے مزید بتایا کہ وزیر خزانہ اسد عمر کا سی پیک پر آئی ایم ایف کے تحفظات سے متعلق بات چیت کے لیے 25 اپریل کو دورہ چین کا امکان ہے اور بین الاقوامی مانیٹری فنڈ بیل آؤٹ پیکج کو حتمی شکل دینے سے قبل وزیر خزانہ کو سننے کا انتظار کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ’9 ماہ میں اس پوزیشن پر آگئے کہ آئی ایم ایف سے اپنی شرط پر قرض لے رہے ہیں’
علاوہ ازیں دونوں فریق مجوزہ آئی ایم ایف پروگرام کی تفصیل پر ’فائن ٹیوننگ‘ میں مصروف ہیں، پاکستان چاہتا ہے کہ آئی ایم ایف پیکج سے جڑی کچھ شرائط کا جائزہ لے جبکہ آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ یہ شرائط پروگرام کی کامیاب تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔
پاکستان نقطہ اٹھاتا ہے کہ اگر یہ حتمی صورت اختیار کرلیتے ہے تو یہ آئی ایم اے ساتھ اس کا 14 واں پیکج ہوگا، تاہم اس کا اعتراض یہ ہے کہ گزشتہ پروگرامز سے منسلک شرائط پر بھی مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہوا کیونکہ یہ بہت زیادہ محدود تھیں۔
اسلام آباد آئی ایم ایف سے چاہتا ہے کہ پروگرام کو شرائط سے منسلک ہونے کے بجائے طویل مدتی تعمیری اصلاحات پر توجہ رکھنی چاہیے تاکہ اس کی معیشت کی بحالی میں مدد ملے کیونکہ شرائط پر عملدرآمد مشکل ہوگا۔
نئے پیکج پر مذاکرات کے دوران پاکستانی وفد نے آئی ایف ایم کو کہا کہ وہ ’ اس پر وعدہ نہیں کریں گے جس پر وہ عمل درآمد نہیں کرسکتے‘۔
اس بارے میں جب پوچھا گیا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے کتنی رقم ملنے کا امکان ہے تو ذرائع کا کہنا تھا کہ ’رقم اور پروگرام کا دورانیہ بھی پیکج کی نوعیت پر منحصر ہے، اگر شرائط بہت زیادہ محدود ہوئی تو پاکستان بڑے پیکج کی توقع کرسکتا ہے‘۔
آئی ایم ایف کی جانب سے تجویز کردہ کچھ شرائط میں اسٹیٹ بینک کو خودمختار بنانا، مارکیٹ پر مبنی ایکسچیج ریٹ، ٹیکس ہدف کو 5 ہزار ارب روپے تک بڑھانا، انکم ٹیکس رعایت کو ختم کرنا، تنخواہوں پر مزید ٹیکس لگانا، قابل ٹیکس آمدنی کی رقم کو 12 لاکھ سالانہ سے کم کرکے 4 لاکھ سالانہ کرنا، بجلی اور گیس نقصانات کو کم کرنا، نیپرا اور اوگرا کی پالیسیز میں حکومتی مداخلت نہ ہونا اور بجلی اور گیس ریونیو کے 140 ارب روپے خسارے کو صارفین سے وصول کرنا شامل ہے۔