پاکستان

میشا شفیع-علی ظفر کیس سپریم کورٹ پہنچ گیا

اداکارہ نے گواہوں پر جرح کرنے کی اجازت نہ دینے کا سیشن اور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
|

گلوکارہ میشا شفیع نے اداکار علی ظفر کے خلاف لگائے گئے جنسی ہراساں کرنے کے کیس میں سیشن کورٹ کی جانب سے گواہوں سے جرح کی مہلت نہ دینے کے خلاف اب سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

میشا شفیع نے سیشن کورٹ کی جانب سے گواہوں سے جرح کی مہلت دینے سے متعلق ابتدائی طور پر لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ نے بھی سیشن کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا، تاہم لاہور ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کو حکم دیا تھا کہ وہ کیس کا فیصلہ 15 اپریل کے بجائے 90 دن میں سنائے۔

لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بھی سیشن کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھنے کے خلاف میشا شفیع نے اب سپریم کورٹ میں گواہوں سے جرح کرنے کی مہلت مانگنے کے لیے درخواست دائر کردی۔

اداکارہ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ سیشن کورٹ نے گواہوں پر جرح کرنے کی مہلت نہیں دی اور حکم دیا کہ گواہوں کو عدالت میں پیش کیے جانے کے فوری بعد جرح ہوگی۔

میشا شفیع کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ جس طرح گواہوں کو پیش کرنا بنیادی حق ہے، اسی طرح گواہوں سے جرح کرنا بھی بنیادی حق ہے، تاہم گواہوں کو جانے بغیر ان سے فوری طور پر جرح نہیں کی جاسکتی، اس لیے گواہوں سے جرح کرنے کی مہلت دی جائے۔

انہوں نے اپنی درخواست میں مزید کہا ہے کہ گواہوں کو جانے بغیر ان سے جرح کرنا ممکن ہی نہیں اور ممکنہ طور پر اجازت نہ ملنے سے کیس متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

میشا شفیع کی جانب سے دائر درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے بھی سیشن کورٹ کی طرح گواہوں سے جرح کرنے کی مہلت نہیں دی۔

اداکارہ نے درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر انہیں گواہوں سے جرح کی مہلت دی جائے۔

خیال رہے کہ تین دن قبل ہی لاہور ہائی کورٹ نے میشا شفیع کی درخواست پر سیشن کورٹ کو حکم دیا تھا کہ کیس کا فیصلہ 90 دن کے اندر سنایا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: علی ظفر کے خلاف میڈیا پر بیان بازی کی درخواست، فیصلہ محفوظ

اداکارہ نے لاہور ہائی کورٹ کو درخواست دی تھی کہ سیشن کورٹ کیس کا فیصلہ 15 اپریل تک سنانے کا فیصلہ کر چکی ہے اور انہوں نے سیشن کورٹ کی جانب سے 15 دن میں فیصلہ سنانا حقائق کے برعکس قرار دیا تھا۔

ساتھ ہی اداکارہ نے لاہور ہائی کورٹ سے درخواست میں استدعا کی تھی کہ انہیں کیس میں گواہان پیش کرنے کی مہلت دی جائے۔

تاہم اب اداکارہ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔

علی ظفر پر جنسی ہراساں کرنے کے الزامات

خیال رہے کہ میشا شفیع اور علی ظفر کیس میں ایک ساتھ 2 مقدمات کی سماعت ہوتی ہے۔

ابتدائی طور پر میشا شفیع نے علی ظفر پر جنسی ہراساں کرنے کا کیس کیا تھا جب کہ بعد ازاں علی ظفر نے ان پر جھوٹا الزام عائد کرنے پر ہتک عزت کا مقدمہ کردیا تھا۔

سب سے پہلے میشا شفیع نے علی ظفر پر جنسی ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

میشا شفیع نے گزشتہ برس 19 اپریل 2018 کوایک ٹوئٹ کے ذریعے الزام عائد کیا تھا کہ انہیں ساتھی گلوکار علی ظفر نے متعدد بار ہراساں کیا۔

ان کے مطابق علی ظفر نے ایسے وقت میں جنسی طور پر ہراساں کیا، جب وہ خود کفیل اور معروف گلوکارہ و اداکارہ کے ساتھ ساتھ 2 بچوں کی ماں بھی تھیں۔

گلوکارہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر کئی سال تک خاموشی اختیار کی تاہم اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے وہ اس معاملے کو سامنے لا رہی ہیں۔

میشا شفیع کی جانب سے الزامات عائد کیے جانے کے بعد علی ظفر نے ان تمام الزامات کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف عدالت میں جانے کا اعلان کیا تھا۔

علی ظفر کا کہنا تھا کہ انہیں عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف جاری مہم ’می ٹو‘ کے بارے میں معلوم ہے اور انہیں اندازہ ہے کہ وہ کیوں اور کس لیے ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ وہ شادی شدہ اور جواں سالہ بیٹی اور بیٹے کے والد ہیں اور انہیں خواتین کی اہمیت و عزت کا اندازہ ہے۔

بعد ازاں علی ظفر نے میشا شفیع کو جھوٹا الزام لگانے کے خلاف 100 کروڑ روپے ہرجانے کا قانونی نوٹس بھجوایا۔

میشا شفیع نے علی ظفر کے قانونی نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ علی ظفر نے اپنا لیگل نوٹس واپس نہ لیا تو وہ سول اور فوجداری قوانین کے تحت کارروائی کریں گی۔

دوسری جانب دونوں فنکاروں کے درمیان اس تنازع پر پاکستان کی شوبز انڈسٹری میں مختلف رائے نظر آئی تھی جس میں کسی نے میشا شفیع کی حمایت کی تو کسی نے علی ظفر کا ساتھ دیا۔

دونوں کا کیس گزشتہ ایک برس سے زیر سماعت ہے اور سیشن کورٹ نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ کیس کا فیصلہ 15 اپریل 2019 کو سنایا جائے گا، تاہم میشا شفیع نے مزید گواہ پیش کرنے کے لیے مہلت مانگی تھی، جس کے بعد تین دن قبل ہی لاہور ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کو حکم دیا ہے کہ کیس کو آئندہ تین ماہ میں نمٹایا جائے۔