پاکستان

بی جے پی کے انتخابات جیتنے پر بھارت سے امن مذاکرات کا بہتر موقع ملے گا، عمران خان

اگر بھارت میں اگلی حکومت کانگریس کی ہوئی تو مقبوضہ کشمیر پر معاہدہ کرنا مشکل ہوگا، وزیر اعظم

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کی قوم پرست جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے انتخابات میں جیتنے سے امن مذاکرات کا بہتر موقع ملے گا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم نے چند غیر ملکی صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اگر بھارت میں اگلی حکومت کانگریس کی ہوئی تو پاکستان سے مقبوضہ کشمیر پر معاہدہ ہونا مشکل ہوگا تاہم اگر بی جے پی جیت گئی تو شاید کشمیر مسئلے کا کوئی حل نکل سکے گا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے باوجود مودی کے بھارت میں کشمیر کے مسلمانوں اور عام مسلمانوں کے ساتھ اجنبیوں جیسا سلوک برتا جارہا ہے‘۔

مزید پڑھیں: مودی کی سربراہی میں اتحاد کو اکثریت کا تعاون حاصل، سروے

انہوں نے کہا کہ ’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا جو اب بھارت میں ہورہا ہے، مسلمانوں کی مسلمانیت پر حملہ کیا جارہا ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’کئی سال پہلے بھارت کے مسلمانوں نے انہیں بتایا تھا کہ وہ وہاں خوش ہیں لیکن اب وہ بھی ہندو انتہا پسندوں سے پریشان ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ نریندر مودی اسرائیلی وزیر اعظم کی طرح ڈر اور قوم پرست جذبات ابھار کر الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت انتخابات: جامع مسجد دہلی کے امام کا کسی جماعت کی حمایت نہ کرنے کا اعلان

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بی جے پی کا رواں ہفتے دہائیوں پرانا جموں و کشمیر کا خصوصی قانون جس کے تحت غیر ریاستی عناصر کو وہاں جائیداد کی خریداری کی اجازت نہیں ہے، کو ختم کرنے کا اعلان تشویشناک ہے تاہم یہ بھی الیکشن جیتنے کا ایک حربہ ہوسکتا ہے۔

عمران خان نے بھارت کو پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پاکستان کی تمام مسلح تنظیموں کو ختم کرنے کے لیے پر عزم ہے اور اس کے لیے حکومت کو پاکستان کی طاقتور فوج سے پوری حمایت حاصل ہے، ان گروہوں میں کشمیر میں ملوث گروہ بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر سیاسی جدوجہد ہے جس کا کوئی فوجی حل نہیں، مسلح تنظیمیں جب پاکستان کی سرحد پار کرتی ہیں تو بھارتی کریک ڈاؤن کی وجہ سے کشمیری ہی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔

پلوامہ حملہ اور بھارتی جارحیت

14 فروری کو مقبوضہ کشمیر میں کار بم دھماکے کے نتیجے میں 44 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد نئی دہلی نے کسی بھی طرح کی تحقیقات کیے بغیر اس کا الزام پاکستان پر عائد کردیا تھا جسے اسلام آباد نے مسترد کردیا۔

بھارت نے الزام لگایا تھا کہ یہ حملہ کالعدم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کی جانب سے کروایا گیا، ساتھ ہی انہوں نے اس حملے کے ماسٹر مائنڈ کی ہلاکت کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

تاہم بغیر کسی ثبوت کے بھارت نے اس معاملے کو پاکستان سے جوڑدیا تھا اور پاکستان سے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ واپس لے لیا تھا جبکہ پاکستان سپرلیگ کی نشریات پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔

بھارت میں اور مقبوضہ کشمیر کے کئی علاقوں میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمان شہریوں کے گھروں اور املاک کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں درجنوں مسلمان خاندان محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے تھے۔

بھارتی الزام تراشی کا جواب دیتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے نئی دہلی کو ’قابلِ عمل معلومات‘ فراہم کرنے کی صورت میں تحقیقات میں تعاون کی بھی پیشکش کی تھی لیکن بھارت نے تحقیقات کی پیش کش کو ناصرف مسترد کیا بلکہ پاکستانی وزیراعظم کے بیان کو حقیقت کے برعکس قرار دیا۔

بعدازاں بھارت کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی جارحیت کی گئی تھی اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے پاکستان میں دہشت گرد کیمپ تباہ کر کے 350 سے زائد شدت پسندوں کو مار دیا ہے لیکن وہ اپنے اس دعوے کے برعکس کوئی بھی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے۔

اگلے دن بھارت کی جانب سے ایک مرتبہ پھر دراندازی کی کوشش کی گئی لیکن پاکستان نے بروقت جوابی کارروائی کر کے دو بھارتی جہازوں کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک پائلٹ کو گرفتار بھی کر لیا تھا۔

بعدازاں اس بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو جذبہ خیر سگالی کے تحت رہا کردیا گیا تھا لیکن بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔