فیس بک،ٹوئٹر سائبر کرائم کی شکایات میں تعاون نہیں کررہے، ایف آئی اے
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بتایا کہ 'فیس بک' اور 'ٹوئٹر' کے عدم تعاون کی وجہ سے سائبر کرائم کے خلاف شکایات کے حل میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
چیئرمین علی خان جدون کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے ڈائریکٹر ایف آئی اے افضل محمود بٹ نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ دو سال میں ایف آئی اے کو سوشل میڈیا سے متعلق مجموعی طور پر 29 ہزار 5 سو 77 شکایات موصول ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ جعلی اکاؤنٹس سے متعلق 9 ہزار 8 سو 22 شکایات کا ازالہ کرتے ہوئے 8 ہزار 7 سو 23 اکاؤنٹس کو ختم کردیا گیا ہے۔
ڈائریکٹر ایف آئی نے بتایا کہ انہیں 34 ہزار 8 سو 46 یو آر ایل (ویب پیجز) کے خلاف شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 28 ہزار 4 سو 60 کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں ختم کردیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: ایف آئی اے کو سائبر کرائم کے 15 نئے شکایتی مراکز قائم کرنے کی اجازت
انہوں نے مزید بتایا کہ اگست 2016 کے بعد سے اب تک فیس بک سے متعلق 15 ہزار 4 سو 33، واٹس ایپ سے متعلق 3 ہزار ایک سو 43 اور ٹوئٹر سے متعلق 6 ہزار 67 شکایات موصول ہوئیں جن پر مرحلہ وار متعلقہ سروسز کو بلاک کرنے کے لیے آگاہ کرنے کا کام جاری ہے۔
ایف آئی اے ڈائریکٹر نے کہا کہ فیس بک اور ٹوئٹر کی جانب سے ان کے تحفظات کا اچھا ردعمل نہیں دیا جارہا جس کی وجہ سے شکایات کا ازالہ کرنے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔
چئیرمین قائمہ کمیٹی علی جدون نے کہا کہ ایف آئی اے کی جانب سے بتائے گئے اعداد و شمار بہت کم ہیں، اس حوالے سے لوگوں کو نچلی سطح تک آگاہی فراہم کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ شکایت درج کرانےکا طریقہ کار بہت طویل ہے جسے آسان بنایا جانا چاہیے۔
کمیٹی رکن ناز بلوچ نے کہا کہ ان کے نام سے بہت سارے فیس بک پیجز چل رہے ہیں جن سے ان کا واسطہ نہیں اور ان جعلی پیجز پر لاکھوں فالوورز بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کی شکایات کے لیے علیحدہ اور زیادہ کال سینٹرز قائم ہونے چاہیئیں۔
ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ ادارے کے 'سائبر ونگ' کو افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے، اس وقت ایک سو 14 افراد سائبر ونگ میں کام کررہے ہیں جبکہ جلد مزید 4 سو 7 اسامیوں پر بھرتی مکمل ہوجائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے نے سائبر کرائم کی روک تھام کیلئے خصوصی اختیارات مانگ لیے
انہوں نے بتایا کہ ایف آئی اے میں 4 سو 6 پوسٹوں پر 25 فیصد خواتین کو شامل کیا گیا ہے۔
چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) عامر عظیم باجوہ نے کمیٹی کو بتایا کہ جعلی اکاؤنٹس اور دیگر شکایات کے لیے پی ٹی اے کا یو اے این نمبر موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اب تک پی ٹی اے نے نفرت انگیر مواد اپ لوڈ کرنے والی ایک ہزار 6 سو 84 ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاونٹس بلاک کیے ہیں۔
کمیٹی رکن زین قریشی نے تجویز دی کہ شکایات کا ٹریکنگ نظام بنایا جانا چاہے، آئن لائن پورٹل بنایا جائے جہاں آن لائن ٹریکنگ بھی ہو۔
سیکریٹری وزارت آئی ٹی معروف افضل نے بتایا کہ وزارت اس وقت سائبر سیکورٹی کے لیے نیشنل سرٹ کے لیے کام کر رہی ہے، تمام اداروں کی سرٹس ہوں گی جو نیشنل سرٹ کے ساتھ منسلک ہوں گی۔
مزید پڑھیں: سائبر کرائم بل قومی اسمبلی سے منظور
انہوں نے کہا کہ وزارت آئی ٹی پالیسی تشکیل دیتی ہے، پی ٹی اے کابینہ ڈویژن کے تابع ہے، ایف آئی اے بھی ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں لیکن سائبر کرائم ایکٹ میں ہر ادارے کا کردار مختص کیا گیا ہے۔
ممبر ٹیلی کام مدثر حسین نے بتایا کہ پی ٹی اے اور ایف آئی اے کا اپنا اپنا مینڈیٹ ہے، پی ٹی اے خود سے ایف آئی اے کو شکایت ریفر نہیں کرسکتا، شکایت کے لیے مدعی کا ہونا بہت ضروری ہے۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی نے موبائل فون کمپنیوں کے لائسنسز کی تجدید سے متعلق بتایا کہ 'ٹیلی کام کمپنیوں کے لائسنس کا معاملہ مکمل ہوگیا ہے، منگل کو کابینہ میں منظوری کی توقع ہے۔'